اسلام آباد(پی این آئی)سعودی ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق اسلام آباد کے رہائشی بخت منیر موٹر وے سے واپس اسلام آ رہے تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آن پہنچا۔
تھانہ ٹیکسلا کی حدود میں انٹر چینج پر رک کر مسجد میں نماز پڑھنے گئے۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر باہر نکلے تو پتہ ان کے جوتے چوری ہو چکے ہیں۔ یوں تو مسجدوں میں جوتے تو آئے روز چوری ہوتے ہیں لیکن بخت منیر کے چوری ہونے والے جوتے کوئی عام جوتے نہیں تھے بلکہ ان کی مالیت ڈھائی سے 3 لاکھ روپے تھی۔ بخت منیر نے جوتے چوری کی رپورٹ درج کرانے تھانہ پہنچ گئے اور ایف آئی آر درج کرا دی۔ ’تاہم جب میں نے اُس شخص کو جوتے کی مالیت بتائی تو اُس نے جوتے واپس کرنے میں ٹال مٹول شروع کر دی۔‘ تھانہ ٹیکسلا کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر ذوالفقار علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اسلام آباد کے رہائشی بخت منیر نے موٹروے انٹرچینج تھانہ ٹیکسلا کی حدود میں مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ بخت منیر نے اپنے جوتے ریک میں رکھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد جب جوتے لینے پہنچے تو پتہ چلا کہ ان کے جوتے موجود نہیں۔ مبینہ طور پر جوتے اٹھانے والا شخص مہنگی گاڑی پر سوار ہو کر چلا گیا۔ تھانہ ٹیکسلا میں درج ایف آئی آر میں یہ دلچسپ بات بھی شامل ہے کہ جوتا چرانے والا ایک مہنگی کار پر سوار ہو کر مسجد آیا تھا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق جوتے اٹھانے والا شخص واپس اُسی گاڑی میں بیٹھ کر گیا۔ اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن تھری کے رہائشی بخت منیر کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 23 جنوری 2024 کو ان کے ہکلہ انٹر چینج کے سروس ایریا میں واقع مسجد میں نماز پڑھنے کے دوران چوری ہونے والے جوتے کی مالیت ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ یہ جوتا گوچی کا ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہے۔ مدعی بخت منیر نے بتایا کہ 23 جنوری کو جوتا غائب ہونے کے بعد انہوں نے مسجد کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کی مدد سے چھان بین کی تو پتہ چلا کہ ان کا جوتا ہونڈا سوک میں سوار ہو کر نماز کے لیے مسجد آنے والے شخص اسماعیل نے پہن لیا تھا۔ مبینہ طور پر وہ یہ جوتا پہن کر سروس ایریا سے چلا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں اس کار کا نمبر اور اس کے مالک کا پورا نام بھی درج ہے اور اس کار کے ڈرائیور کا نام اور پتہ بھی درج ہے۔
مدعی کے مطابق انہوں نے جوتا پہن کر مسجد سے چلے جانے والے کار ڈرائیور اسمعیل سے فون پر رابطہ کر کے ان سے اپنا جوتا واپس کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ جوتا غلطی سے پہن کر چلے گئے تھے، اب وہ جوتا واپس کر دیں گے۔ مدعی بخت نصیر کے مطابق بعد میں اسماعیل نے جوتا واپس نہیں کیا اور فون کرنے پر ٹال مٹول کرنے لگا۔ 26 جنوری کو مدعی نے ٹال مٹول سے عاجز آ کر واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانہ ٹیکسلا میں درخواست دے دی۔ تاہم اُس وقت پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔ مدعی کے دباؤ ڈالنے پر آخر کار 14 مارچ کو پولیس نے ملزم اسماعیل سکنہ ہری پور کے خلاف سیکشن 379 تعزیرات پاکستان کے تحت ایف آئی آر درج کر لی۔ تعزیراتِ پاکستان کی سیکشن 379 کسی کھلے مقام سے کسی چیز کے چوری یا سرقہ ہو جانے کے جرم سے متعلق ہے۔ اس سیکشن کے تحت مقدمہ میں جرم ثابت ہو جانے پر زیادہ سے زیادہ سزا 3 سال قید ہو سکتی ہے۔ عدالت صرف جرمانہ بھی کر سکتی ہے اور قید اور جرمانہ دونوں سزائیں بھی دے سکتی ہے۔ رابطہ کرنے پر اردو نیوز کو پولیس نے بتایا کہ ملزم کی تلاش جاری ہے جسے جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ کیس کی تحقیقات کرنے والے راولپنڈی پولیس کے اے ایس آئی ذولفقار علی نے اردو نیوز کو بتایا معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں