سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی نقوی کیخلاف فیصلہ سنا دیا

اسلام آباد (پی این آئی) سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے برطرف کرنے کی سفارش کردی ہے۔

 

 

میڈیا کے مطابق اعلامیہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس ر مظاہر علی نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیا، سپریم جوڈیشل کونسل نے مظاہر علی نقوی کو برطرف کرنے کی سفارش کردی،سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی رائے منظوری کیلئے صدر مملکت کو بھجوا دی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی شق نمبر 5 میں ترمیم کردی، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز پر الزامات لگا کر تشہیر کی گئی، کئی ججز نے اپنے اوپر عائد الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ یاد رہے 03 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس(ر) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کاروائی مکمل ہونے پر رواں ہفتے کونسل کی رائے متعلقہ حکام کوبھجوائے جانے کا امکان کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی چیئرمین شپ میں کاروائی میں کی تکمیل کی گئی ، شہادتیں مکمل کرلی گئیں ، جبکہ ریٹائرجج نے گواہوں پر جرح کرنے سے انکار کردیا تھا ان کی جانب سے کونسل کو بھجوایا گیا خط ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ کونسل چیئرمین چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی نے کہا تھا کہ کونسل دستاویزات اور گواہیوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے دیںگے، گواہوں نے اپنا کام مکمل کرلیا اور اب ہم اپنا کام مکمل کریں گے۔

 

 

 

خیال رہے 16 فروری کو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)مظاہر نقوی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ آئین و قانون کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار نہیں کہ وہ ریٹائرڈ ججز کیخلاف کارروائی کرے، سابق جج نے سیکرٹری جوڈیشل کونسل کو اس حوالے سے خط لکھا جس میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میرے مستعفی ہونے کے باوجود جاری ہے۔خط کے متن میں کہا گیا کہ اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل اپنے اختیار سے تجاوز کر رہی ہے، میں 10 جنوری کو مستعفی ہو چکا ہوں جسے صدر نے منظور کر لیا ہے۔ جسٹس (ر) مظاہر نقوی کا خط میں کہنا تھا کہ میرے استعفیٰ کی منظوری کا نوٹیفکیشن آفیشل گزٹ میں بھی شائع ہو چکا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا 12 جنوری کا حکم غیرآئینی ہے۔خط میں جسٹس (ر) مظاہر نقوی نے مزید کہا کہ میں آئینی اور قانونی طور پر کونسل کی اس کارروائی کا حصہ بننے کا پابند نہیں۔ اسی طرح 21 فروری 2024ء سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر)مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ جب کونسل کارروائی شروع کردے تو پھر استعفیٰ دینے یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی۔

 

 

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ یا مستعفی ججز کیخلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے بارے وفاقی حکومت کی اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت ،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، کیس میں عدالتی معاونین اور اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد درمیان میں مستعفی ہو جائے تو کیا ہوگا ،عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہئے ۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بھارت میں کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سارا مسئلہ چیف جسٹس کے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا ہے، ججز کیخلاف شکایت نمٹانا صرف چیئرمین کا نہیں بلکہ کونسل کا کام ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے چار ایک کی اکثریت سے فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل جزوی طور پر منظور کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر) مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔

 

 

مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کیخلاف زیرالتوا شکایات پر کارروائی کرنا یا نہ کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپیل زائد المیعاد ہونے کی حد تک فیصلے سے اختلاف ہے ، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں