لاہور(پی این آئی)محمود اچکزئی نے دوبارہ حمایت کی درخواست کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔ محمود خان اچکزئی نے صدارتی انتخاب کیلئے جماعت اسلامی سے حمایت کی دوبارہ درخواست کر دی،سنی اتحاد کونسل کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کا لیاقت بلوچ سے 24 گھنٹوں میں دوسرا رابطہ۔لیاقت بلوچ کا کہنا تھاکہ جماعت اسلامی کا مشاورتی عمل جاری ہے۔ صدارتی انتخاب کے حوالے سے ہم اپنے ممبران سے بات کرکے کسی فیصلے تک پہنچیں گے۔جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا ہے کہ عوام نے دو خاندانوں کے تسلط کے خاتمے کیلئے بانی پی ٹی آئی سے توقعات وابستہ کیں، المناک حقیقت ہے تحریک انصاف بھی دو خاندانوں کے سامنے بے بس اور ناکام ہو گئی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک مرتبہ پھر دو خاندانوں کا تسلط قائم ہو گیا،
ماضی میں بھی بھٹو اور شریف خاندانوں سے وابستہ توقعات نے قوم کو مایوس کیا۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی سنی اتحاد کونسل اور پاکستان تحریک انصاف کے صدارتی انتخاب کیلئے نامزد محمود خان اچکزئی کی جانب سے حمایت کی د رخواست پر جماعت اسلامی نے وقت مانگا تھا۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کا کہنا تھا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے لیاقت بلوچ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تھا۔دونوں رہنماوٴں کے درمیان موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال ہواتھانائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے محمود خان اچکزئی کے گھر پر پولیس چھاپے کی مذمت کی تھی۔ محمود خان اچکزئی نے جماعت اسلامی سے صدارتی انتخاب میں حمایت کی درخواست کی تھی۔ جماعت اسلامی مشاورت کے بعد صدارتی انتخاب کے حوالے سے فیصلہ کریگی۔خیال رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کی حمایت کی تھی۔پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے صدارتی انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔
بانی پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کی اجازت دی تھی۔ عام انتخابات میں محمود اچکزئی این اے 266 قلعہ عبد اللہ کم چمن سے 67 ہزار 28 ووٹ لیکر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔الیکشن شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 4 مارچ کوکی گئی تھی۔جبکہ کاغذات نامزدگی 5 مارچ دوپہر 12 بجے تک واپس لینے کا ٹائم مقرر کیاگیاتھااور امیدواروں کی فہرست 5 مارچ کو 1 بجے آویزاں کی جائے گی اورانتخاب سے دستبردار ہونے کی تاریخ 6 مارچ رکھی گئی ہے۔صدارتی انتخاب کیلئے پولنگ 9 مارچ کو صبح 10 سے شام 4 بجے تک پارلیمنٹ ہاوٴس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں