لاہور (پی این آئی) لوگوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، لوگوں نے 8 فروری کو نفرت کا اظہار کیا مگر سرکاری ملازمین نے 9 فروری کو “نواں چن” چڑھا دیا،نواز شریف بھی ایک پریس کانفرنس کرنے والے تھے پھر انہیں نظر نہ آنے والی قوتوں نے روک دیا۔
گڑبڑ تو خیر ابھی تک جاری ہے۔سینئر تجزیہ کار و کالم نگار مظہر برلاس نے اہم انکشافات کر دیئے۔انہوں نے لکھا کہ لوگوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔سوچتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے حالات کی سچی تصویر رکھوں اور سچ بتادوں کیونکہ لوگوں میں مایوسی نہیں نفرت ہے۔ مایوسی گناہ ہے، نفرت گناہ نہیں۔ لوگوں نے 8 فروری کو نفرت کا اظہار کیا تھا، ندی نالوں جتنی نہیں سمندر جیسی نفرت کا اظہار مگر سرکاری ملازمین نے 9 فروری کو ایک “نواں چن” چڑھا دیا۔ لوگوں کے ووٹ پر اپنے فیصلے مسلط کر دیئے، جو 8 فروری کو جیتے تھے 9 فروری کو ہرا دیئے گئے اور جادو نگری میں ہارنے والوں کو جتوا دیا گیا۔ یہ ہے ملک کا کرپٹ ترین نظام، جس میں لوگ ذاتی مفادات کی خاطر، ضد اور انا کو پالتے ہیں، لوگوں کے فیصلے نظر انداز کرتے ہیں، لوگوں پر کرپٹ مافیا مسلط کرتے ہیں۔
آج مبینہ طور پر کہتا ہوں کہ نواز شریف بھی ایک پریس کانفرنس کرنے والے تھے پھر انہیں نظر نہ آنے والی قوتوں نے روک دیا، ممکن ہے جنات ہوں؟ کچھ باتیں میاں جاوید لطیف نے میڈیا کے ذریعے کی ہیں، جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اب 9 فروری والوں کی حکومت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) تو حکومت نہیں بنانا چاہتی تھی ان سے زبردستی حکومت بنوائی جا رہی ہے۔ حیرت ہے ان کے ساتھ زبردستی کون کر سکتا ہے؟ جب پورا سسٹم ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو تو زبردستی کیسی؟اپنے تجزیئے میں مظہر برلاس نے مزید لکھا کہ انتہائی کم نشستوں کو زیادہ بنا دینا کسی بڑے جادوگر کا کمال ہے لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس سارے کھیل میں بدنامی کے سوا کیا ملا ؟ نت نئے لطیفے سامنے آرہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں جتوائے گئے لوگ حلف کے موقع پر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے آپ فارم 45 والے ہیں یا فارم 47 والے؟ فارم کے تذکرے پہ کوئی خاموش رہتا تو اسے سامنے والا پوچھتا، اچھا چلو یہ بتاؤ 8 فروری والے ہو یا 9 فروری والے؟ آپ نے محمود خان اچکزئی، پیر پگارا، ایمل ولی اور مولانا فضل الرحمٰن کی باتوں کے بعد سینیٹ میں عون عباس بپی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر عمر فاروق کی باتیں سنی ہوں گی۔ جب پیسوں کے لین دین کا تذکرہ پریس کانفرنس سے ہوتا ہوا ایوان بالا تک پہنچ جائے تو پھر سمجھ لو کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے۔تجزیئے کے آخر میں مظہر برلاس نے لکھا کہ گڑبڑ تو خیر ابھی تک جاری ہے 26 فروری کو(ن) لیگ کے عبدالرحمن کانجو کو جتوا دیا گیا،الیکشن کے 6روز بعد شبیر اعوان کو ہرا دیا گیا،ایک آدھ دن میں سعد بلوچ سے سیٹ چھین لی جائے گی ،جن لوگوں کو گڑ بڑ سمجھ نہیں آ رہی وہ چوہدری نثار علی خان کی تازہ تقریر سن لیں، انہیں افاقہ ہوگا۔
چوہدری نثار علی خان تبدیل کیے گئے نتائج کی روشنی میں جیتنے اور جتوانے والوں کو کم ظرف قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مبارکبادیں وصول کرنے والوں کو جلد جوتیاں پڑنے والی ہیں۔ رہیں عدالتیں اور نظام، اس کی وضاحت ایک مثال سے ہو جائے گی۔ اپریل 2016ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف تھے، انہوں نے بڑھک مار کر کچے کے علاقے میں آپریشن شروع کیا، پہلے ہی ہلے میں چھوٹو گینگ نے 24 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا پھر ایک درجن کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ مسلسل ناکامی کے بعد آپریشن فوج کے حوالے کیا گیا، چھوٹو سے مذاکرات ہوئے، چھوٹو نے اپنے 20 ساتھیوں سمیت خود کو فوج کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد انسداد دہشت گردی ملتان کی عدالت میں کیس چلا۔ چھوٹو اور 20 ساتھیوں کو اٹھارہ اٹھارہ مرتبہ سزائے موت اور ساتھ ہی مختلف کیسوں میں 308 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ نئے الیکشن کی برکات چھوٹو گینگ پر بھی برسنا شروع ہو گئی ہیں، غلام رسول چھوٹو اور اس کے 20 ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
لوگ حیران ہیں کہ 308 سال بہت جلد ختم ہو گئے ہیں اور وہ جو اٹھارہ اٹھارہ مرتبہ سزائے موت تھی وہ پتہ نہیں کہاں گئی؟ محمود خان اچکزئی نے 75 ارب جبکہ مولانا فضل الرحمٰن اور سینیٹر عمر فاروق نے کروڑوں کی باتیں کی ہیں، انہوں نے یہ باتیں نتائج کی تبدیلی کے حوالے سے کی ہیں۔ جتوائی گئی پارٹیوں کے لوگ بھی کمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک پارٹی نے تو ویسے ہی اسے سسٹم کا نام دے رکھا ہے، دوسری پارٹی بغیر سسٹم کے ہی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے۔طاقت سے کسی کو بھی مسلط کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں