لاہور (پی این آئی) حالات بدلنے چاہئیں، موسم سرما بھی رخصت ہو رہا ہے، اب ملک اور سیاست میں بھی بہار آنی چاہیے ۔
9 مئی کا واقعہ قابل مذمت ہے مگر کسی غلطی پر عوامی گواہی میسر نہ آئے تو وہ غلطی بھی ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ عمران خان کو جیل سے نکال کر بنی گالا منتقل کیا جائے وہ کوئی غدار یا شرپسند نہیں ،انہیں بھرپور عوامی مینڈنٹ ملا ہے۔ ان کی نظر بندی کے دوران مقتدرہ کا نمائندہ وفد جاکر ان سے ملے اور مقتدرہ انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے “اہم تجاویز “دیدیں ۔اپنے بلاگ بعنوان ” اَساں قیدی تخت ’’سیاست‘‘ دے”میں انہوں نے لکھا کہ انتخابات کا سفر مکمل ہوا، اب حالات بدلنے چاہئیں۔ موسم سرما بھی رخصت ہو رہا ہے، بہار بہار کی آمد ہے، کلیاں چٹخنے لگی ہیں ، پھول کھلنے کو ہیں، اب ملک اور سیاست میں بھی بہار آنی چاہیے۔
ہماری صحافت کی پرانی روایت ہے کہ جب بھی کوئی اہل سیاست جیل میں جائے تو اسکے ساتھ اختلاف ختم کرکے اس کا ساتھ دیا جائے، میں سالہا سال سے اسی روایت پر کاربند رہا ہوں۔ 9 مئی کا واقعہ قابل مذمت ہے مگر 8 فروری کے مینڈیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عوام الناس نے اس فروگزاشت کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور عمران خان کو قطار اندر قطار ووٹ ڈالے ہیں، اگر کسی غلطی پر عوامی گواہی میسر نہ آئے تو وہ غلطی بھی ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک نئے دور کی ضرورت ہے، عمران خان کو جیل سے نکال کر بنی گالا منتقل کیا جائے وہ کوئی غدار یا شرپسند نہیں ،انہیں بھرپور عوامی مینڈنٹ ملا ہے۔ ان کی نظر بندی کے دوران مقتدرہ کا نمائندہ وفد جاکر ان سے ملے اور مقتدرہ انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کرے۔
انہیں سیکیورٹی صورتحال اور سیاسی ماحول کے بارے میں بریف کیا جائے۔ اسی طرح اہل سیاست بھی ان سے رابطہ کرکے مستقبل کے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کریں ۔ یاد کریں کہ 1977ء میں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی میں خونیں جنگ جاری تھی، قومی اتحاد کی قیادت جیلوں میں بند تھی مگر پھر ان کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کرکے مذاکرات شروع کیے گئے۔ اب بھی ملکی استحکام، سیاسی ساکھ اور معاشی مستقبل کیلئے ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔بلاگ میں سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ عمران خان جیل میں بہادری اور ثابت قدمی دکھا رہے ہیں۔ 8 فروری کے بعد اب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں گی، مقتدرہ کا غصہ بھی اب ٹھنڈا ہوجانا چاہیے اور عمران کے ساتھ ہونے والا سوتیلا سلوک اب ختم ہونا چاہیے۔
پہلے مرحلے کے طور پر انہیں جیل سے نکال کر نظر بند کیا جاسکتا ہے، کوشش کی جائے کہ وہ میانوالی سے منتخب ہوکر پارلیمان میں بھی آئیں۔ فرض کریں میری یہ تجویز مان لی جائے تو یکایک ملک میں کشیدگی کا ماحول بدل جائے گا اور ریاست اپنی بھرپور توجہ معیشت کی بہتری کی طرف مرکوز کر سکے گی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مقتدرہ اور عمران خان میں ذاتی اختلافات تو ہیں پالیسی اختلاف کوئی بھی نہیں، اسلئے اس رابطے میں دونوں طرف سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔اسی طرح باقی سیاسی اسیران جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد، سینیٹر اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید کو اہل لاہور دہائیوں سے جانتے ہیں یہ شرپسند نہیں، ہاں پارٹی کے وفادار ہوسکتے ہیں۔ بلاگ کے آخر میں انہوں نے لکھا کہ جو لوگ مقتدرہ کے کہنے پر تحریک انصاف چھوڑ گئے وہ کہیں کے نہ رہے چاہے وہ چودھری فواد ہوں، فیاض الحسن چوہان ہوں یا فردوس عاشق اعوان۔
اسی طرح جہانگیر ترین اور پرویز خٹک بے چارے سیاست سے ہی آؤٹ ہوگئے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مقتدرہ کی پالیسیوں میں کوئی بہت بڑی خرابی ہے۔ الیکشن کے نتائج بھی ان کی من مرضی کے بالکل الٹ نکلے ہیں، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ وہ اپنی پالیسیاں اور حکمت عملی بدلیں۔ اگر تاریخ سے سبق سیکھا جائے تو جو کچھ بھٹو کے ساتھ ہوا وہی آج عمران کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آج کی مقتدرہ اور عدلیہ، ضیائی دور سے کہیں سمجھدار، روشن خیال اور ترقی پسند ہے انہیں چاہیے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں، سیاسی قیادت بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ عمران خان بڑے پکے محب وطن ہیں، تازہ مینڈیٹ نے ان کی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، انہیں بھی اب ریاست کے ساتھ تعاون کا راستہ کھولنا چاہیے، مقتدرہ سے لڑائیاں اور گالی گلوچ کرنے والوں کی نہ سنیں اور ایک بالغ النظر سیاستدان کی طرح ماضی کی تلخیاں بھلا کر تاریخ کا نیا ورق الٹیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں