اسلام آباد (پی این آئی) مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے اور مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 9 مئی کے فلسفے اور سوچ کو بھول کر 8 فروری کو اپنی حکمت عملی بنائے اور فساد و انتشار کی سیاست ختم کرکے مثبت جمہوری وپارلیمانی کردار کی طرف آئے۔ منگل کو سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ خوش گوار نہیں بلکہ افسوسناک رہی ہے۔ قومیں انتخابات کے بعد اپنے بحران اور مسائل حل کرکے آگے بڑھتی اور نئی حکمت عملی بناتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعد 23 سال ملک میں انتخابات نہیں ہوسکے۔
1958 میں انتخابات سے پہلے طویل مارشل لاءآجاتا ہے۔ 1970 کے انتخابات میں اکثریت کا فیصلہ نہ ماننے پر ملک ٹوٹ گیا۔ 1977 کے انتخابات میں بھی دھاندلی کا شور اٹھا۔ سیاسی جماعتیں آپس میں گتھم گتھا تھیں، آپس کے مسائل حل نہ کرپائیں تو گیارہ سال کا ایک اور طویل مارشل لاءآگیا۔ ایک الیکشن ملک توڑ گیا تو دوسرا گیارہ سالہ مارشل لاءدے گیا۔ کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ 2018 کے انتخابات کا ذکر نہیں ہوتا۔ صرف 2024 کا رونا رویا جارہا ہے۔ کاش 2018 کا بھی ذکر کریں۔ اُس وقت ہماری سزاﺅں پر قہقہے لگائے گئے۔ نوازشریف کے جیل جانے پر ہنسا گیا، ان کا مذاق اڑایاگیا۔ آج جو باتیں کی جارہی ہیں، اُس وقت بھی کی جانی چاہییں تھیں۔ 2018 میں جو ہوا، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس وقت چار دن بعد نتائج کا اعلان ہوا تھا۔ اس وقت بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ آج بھی کچھ ہوا ہے تو پورے ملک میں ہوا ہے۔ صرف پنجاب بلوچستان میں نہیں ہوا خیبرپختون خوا میں بھی ہوا ہے۔
یہاں چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کرائے ہیں تو کیا خیبرپختون خوا میں الیکشن امام کعبہ نے کرائے ہیں یا امام ابوحنیفہ وہاں بیٹھے تھے؟ کوئی خرابی ہوئی ہے تو ہمہ جہت ہوئی ہے، اس کا نقصان ہمیں اور آپ سب کو ہوا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے ہاتھ میں موجود فارم 45 پاک اور ہمارے ہاتھ میں موجود فارم 45 ناپاک ہے۔ ترازو کو برابر رکھیں۔ انہوں نے کہاکہ 2013 کے الیکشن کے بعد چار ماہ کا ایک احتجاجی دھرنا ہوا، اس وقت بھی دھاندلی کا شور مچایاگیا۔ اس وقت کا نعرہ 35 پنکچرتھا، آج کا نعرہ فارم 45 ہے۔ اُس وقت افضل خان اٹھے تھے، آج ایک کمشنر صاحب اٹھ آئے ہیں۔ پی ٹی آئی ماضی کی تاریخ ایک بار پھر دوہرا رہی ہے۔ اُس وقت کہاگیا تھا کہ ’اردو بازار میں بیلٹ کی چھاپے جارہے ہیں، آج کہاجارہا ہے کہ لکشمی چوک میں بیلٹ کی چھپائی ہورہی ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ اگر دھاندلی ہوئی ہے تو ہر جگہ ہوئی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جہاں آپ جیتے ہیں، وہاں الیکشن شفاف اور جہاں آپ کا مخالف جیتا ہے ، وہاں دھاندلی ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی سیل بے پناہ کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ وہاں دھاندلی کیوں نہیں ہوئی؟ انہوں نے کہاکہ 2018 میں نوازشریف اوران کی بیٹی جیل میں تھے۔ انہیں الیکشن نہیں لڑنے دیاگیا تھا۔ جو اُس وقت غلط تھا، وہ آج بھی غلط ہے۔ لیکن ہم سب کچھ بھول کر پارلیمنٹ میں بیٹھے اور پارلیمانی کردار ادا کیا۔ نوازشریف کو تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا دی گئی، آپ کے جرائم کی فہرست تھوڑی مختلف ہے۔ آپ کو تو نچلی سطح کی عدالتیں سزائیں سنارہی ہیں، آپ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جاسکتے ہیں۔
نوازشریف کو تو سزا ہی سپریم کورٹ دے رہی تھی۔ نہ اپیل، نہ وکیل نہ دلیل کا حق دیاگیا۔ یہ ہمارے ساتھ ہوتا رہا۔ پھر بھی ہم اپوزیشن میں بیٹھ گئے۔ سڑکوں پر نہ گئے، واویلا بھی نہ کیا۔ آپ بھی اس نظام کو بچانے، اس کے دفاع کے لئے آگے بڑھیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہ سینٹ میں ہم آج بھی آزاد ارکان کے طورپر یہاں بیٹھے ہیں۔ ہمارے ٹکٹ بھی چھینے گئے تھے، انتخابی نشان چھینا گیا تھا۔ ہمارے نام کے سامنے مسلم لیگ (ن) نہیں لکھا لیکن ہم کسی سنی کونسل میں نہیں گئے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے معتبر ادارے گیلپ پاکستان نے ’پولیٹیکل ویدر‘ کے عنوان سے ایک سروے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل جنوری میں جاری کیا تھا۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج بالکل اسی طرح ہیں جیسا کہ اس سروے میں بتایاگیا تھا۔ سروے میں کہاگیا تھا کہ پی ٹی آئی پنجاب اور اسلام آباد کو ملا کر 34 فیصد ووٹ یا نشستیں حاصل کرے گی۔ 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے 35 فیصد نشستیں لی ہیں۔ سروے کی پیش گوئی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) 32 فیصد نشستیں لے گی، مسلم لیگ (ن) نے 8 فروری کے انتخابات میں 33 فیصد نشستیں لی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ 6 فیصد نشستیں لے گی، پی پی پی نے 6 فیصد نشستیں لی ہیں۔ عرفان صدیقی نے کہاکہ سروے میں کہاگیا تھا کہ پی ٹی آئی خیبرپختون خوا میں 45 فیصد نشستیں لے گی۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے خیبرپختون خوا میں 44 فیصد نشستیں لی ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے بارے میں 15، پی پی پی کے 6 فیصد اور مسلم لیگ (ن) کے بارے میں 9 فیصد نشستیں لینے کا کہاگیا7 فیصد نشستیں لے گی، اے این پی کو6 فیصد نشستیں ملی ہیں۔
صوبہ سندھ میں سروے کے مطابق امکان بتایاگیا تھا کہ پی پی پی 44 فیصد نشستیں لے گی۔نتائج بھی ویسے ہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کے پاس جاسکتی ہے تاکہ وہ احتجاج میں ان کا ساتھ دیں جن کے بارے میں پی ٹی آئی نے نجانے کون کون سے القابات نہیں کہے۔ ایک عالم دین کو رسوا کیا، ان کی توہین کی۔ اگر احتجاج کے لئے پی ٹی آئی کوچہ رقیب میں سر کے بل چل کر جاسکتی ہے تو جمہوری شناخت اور کردار رکھنے والی اُن جماعتوں کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتی جن کے پاس مجموعی طورپر دوتہائی اکثریت ہے؟ کیا سیاست میدانوں میں ہونی ہے؟ حالانکہ عدالت اور تمام متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ گالی اور پھتر کی سیاست ختم ہونی چاہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا پارلیمانی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں لگتا۔ 2002 میں پہلی بار عمران خان منتخب ہوکر اسمبلی میں آئے اور استعفی دے کر چلے گئے۔ 2008کا انہوں نے الیکشن نہیں لڑا ۔ 2013 میں آئے تو دھرنے دیتے رہے۔ 2018 میں ایوان میں بیٹھے رہے، حکومت ٹوٹنے لگی تو اسمبلی ہی توڑ دی ، یہ جمہوری کریکٹر نہیں۔ انہوں نے کہاکہ جمہوری کردار یہ ہے کہ خندہ پیشانی سے آگے بڑھیں اور ایوان کا حصہ بنیں، جمہوری کردار ادا کریں۔ آپ کے دل پر چوٹ لگی، ہمارے دل پر بھی لگی تھی۔
ان دِل شگاف چیزوں کو سامنے رکھنے کے بجائے، چھوٹی جماعتوں کی چھتری کے نیچے پناہ لینے کے بجائے قومی سیاسی دھارے میں واپس آئیں۔ پی ٹی آئی اب پی ٹی آئی نہیں وحدت المسلمین اور سنی کونسل کہلائے گی۔ عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اس کے تحت مخلوط حکومت ہی تشکیل پاسکتی ہے۔ تنہا کوئی جماعت حکومت بنا ہی نہیں سکتی۔ ایوان اور جمہوریت کو بچانے کے لئے مثبت کردار ادا کریں۔ اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو پتہ نہیں الیکشن ہوں گے یا پھر کیا ہوگا، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ لہذا بہتر راستہ یہی ہے کہ سیاسی استحکام لائیں۔ دس سال سے پی ٹی آئی خیبرپختون خوا میں بیٹھی رہی ہے، پانچ سال اور بیٹھیں۔ وہاں کام کریں۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں