ن لیگ کو حکومت میں آنا چاہئے یا نہیں؟ سینئر ن لیگی رہنما جاوید لطیف کا موقف آگیا

لاہور ( پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ خدا کرے ن لیگ یہ فیصلہ کرلے کہ جس کواکثریت دلائی گئی وہی حکومت بنائے۔

 

 

انہوں نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ خدا کرے مسلم لیگ ن یہ فیصلہ کر لے کہ جس کو مرکز میں اکثریت دلائی گئی اسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے؛ اس سے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ناکام ہوسکتی ہے۔ جس دن یہ فیصلہ کرلیا گیا اس کےاگلے دن بتاؤں گا دھاندلی کس کیلئے کی گئی اور 8 فروری کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر، سابق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معاملات اس طرح آگے نہیں بڑھیں گے، میں اس جماعت کے بارے کہتا رہاہوں کہ یہ عمران خان فتنہ ہے ، یہ فتنہ بالآخر اگر اس کا سدباب نہ ہوا تو یہ ملک وقوم کو لے ڈوبے گا، ان کو اعتراض الیکشن پر نہیں ہے۔

 

 

اعتراض یہ ہے کہ جہاں ہم جیتے ہیں وہاں الیکشن ٹھیک ہے، اور صاف شفاف الیکشن ہوا، لیکن جہاں وہ ہارے ہیں وہاں ان کیلئے الیکشن ٹھیک نہیں ہوا، ان کو چاہیے جہاں الیکشن ٹھیک نہیں ہوا وہاں سے مستعفی ہوجائیں اور دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کریں۔ الیکشن کمیشن یا آراوز کی نالائقی یا کوتاہی الیکشن 2013 میں بھی کہی گئی تھی، 35 پنکچرز کا نام دیا گیا تھا، بعد میں کہا کہ میرا سیاسی بیان تھا، لیکن کسی نے پوچھا کہ ملک کو تباہی بربادی سے کیوں دوچار کیا؟ اگر ان کو الیکشن ٹھیک نہیں لگ رہا تو الیکشن سے باہر آجائیں ۔ ان کے احتجاج کی کال فتنے پر مبنی ہے، یہ کسی کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہم 2018میں دھاندلی کے خلاف احتجاج بھی تھا لیکن اسمبلی میں گئے تھے ۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم جو 16ماہ حکومت کی اس دور میں جو مہنگائی ہوئی وہ مہنگائی بنیادی وجہ ہے ، جس سے ہماری سیاسی نقصان ہوا۔

 

 

 

دوسرا بجلی گیس کے بل، تیسرا انتقامی کارڈ کھیلا گیا۔ ہم نے لوگوں کو بتایا کہ ہم مہنگائی کے ذمہ دار نہیں، لیکن الیکشن میں لوگوں کی اکثریت نے ہماری بات کو تسلیم نہیں کیا۔ قوم کو یہ بات دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم ملک کو اس وقت بھی دلدل سے نکالنے کو تیار ہیں ، بھلے ہی ہمارا نقصا ن ہو، اگر کوئی نہیں شامل ہوگا تو کل کو جو بھی نتیجہ ہوگا وہ ذمہ دار ہوگا۔ وہ حکومت جو معاشی حالات کو بہتر کرسکتی ہے ، سخت فیصلے کرسکتی ہے ملک کو دلدل سے نکال سکتی ہے تو وہ سادہ اکثریت یا پھر دو تین جماعتوں کے مضبوط اتحاد سے آسکتی ہے، لیکن اگر پیپلزپارٹی چاہتی ہے وہ فائدہ اٹھائے،سیاسی نقصان ہمارے حصے میں آئے تو اس سے بات بنے گی نہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان میرے لئے انتہائی عزت واحترام کی جگہ ہیں۔

 

 

 

لیکن خدا کی قسم! انہوں نے اپنے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے، وہ عالم دین ہیں لیکن حقائق کے برعکس بات کی ہے، آج کہتے جنرل فیض نہیں کوئی اور اشخاص تھے، کون تھے؟ یعنی جو بندہ ریٹائرڈ ہوگیا ہے، سارا ملبہ اس پر ڈا ل دو،اور کسی کا نام لینے کی ہمت نہیں ہے؟ میں ایک میٹنگ کا گواہ ہوں، اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے گھر ہاؤس نمبر26 میں ہوئی، مولانا نے کہا کہ آرمی چیف نے بلایا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لیں، عمران خان وزیراعظم الیکشن کا اعلان کردے گا، لیکن مولانا نے دلائل دیئے کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے، ہم کیسے تحریک عدم اعتماد واپس لے لیں؟ پھر مولانا اور آصف زرداری نے اسمبلی تحلیل نہیں کرنے دی، مولانا فضل الرحمان نے انتخابی نتائج کی فرسٹریشن میں ایسی گفتگو کی جو عالم دین کو زیب نہیں دیتی، جے یوآئی ف والوں نے حکومت ہر دن کو آخری دن سمجھ کر کی، میرا خیا ل ہے اس بات کو بس یہیں تک رہنے دیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں مزید جواب آئیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں