عمران خان اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ کیس میں سزامعطل ہوسکتی ہے یا نہیں؟ قانونی ماہرین کی رائےآگئی

اسلام آباد (پی این آئی) بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14،14 سال قید با مشقت کی سزا پر قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ سزا 5 منٹ میں معطل ہو جائیگی۔

بدھ کو احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 10 سال کے لیے نااہل بھی کر دیا۔ ماہرِ قانون مصطفی رمدے نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ملزمان کے پاس اپیل کا حق موجود ہے، میرا خیال ہے وہ لازما اپیل دائر کریں گے، اس کے لیے ان کے پاس پہلا فورم ہائی کورٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ سے مطمئن نہ ہوں تو وہ سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں، ان کے وکلا کو ثابت کرنا پڑے گا کہ فیصلے میں سقم موجود ہے۔ ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ اس سارے کیس کے 3 پہلو ہیں، ایک اس کا قانونی پہلو اور ہائی مورال گرائونڈ کا پہلو ہے، دوسرا سیاسی پہلو ہے اور تیسرا اس کا پراسیجرل پہلو ہے جو ٹرائل کورٹ میں اپنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قانونی پہلو کی بات کریں تو پاکستان کا قانون ہر وزیراعظم کو اجازت دیتا ہے کہ وہ توشہ خانہ تحائف اپنے پاس رکھے یا جمع کروادے، مسئلہ تب آیا جب ان تحائف کو نہ صرف جمع نہیں کروایا گیا بلکہ جو اس کی قیمت لگوائی گئی وہ بھی اس کی اصل ویلیو سے کم تھی، اصل ویلیو سے کم قیمت دے کر یہ تحائف اپنے پاس رکھ لیے گئے۔حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ریفرنس دائر کیا گیا، جب سے یہ ریفرنس چل رہا ہے بارہا اس پر سیاسی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی کہ دیگر سیاستدان 20 فیصد قیمت ادا کرتے تھے جبکہ ہم نے 50 فیصد قیمت ادا کی، بات صرف یہ تھی کہ کہ جو قیمت ادا کی گئی وہ ان تحائف کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق تھی یا نہیں اس کا جواب کوئی نہیں تھا، نتیجتا سیکشن 9 میں 14 سال اور سیکشن 15 میں 10 سال کی نااہلی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب اگر یہ عدالت میں ثابت کردیتے ہیں کہ ہم کورٹ کے ساتھ تعاون کررہے تھے، آرٹیکل 10(ای)کی خلاف ورزی کی گئی، ہم اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں اور اپنا ڈیفنس لے کر آنا چاہتے ہیں، اگر اس بنیاد پر یہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہیں تو اس بات کہ روشن امکان موجود ہیں کہ اس فیصلے کو ریورس کردیا جائے گا اور معاملہ رائٹ آف کراس ایگزامنیشن پر چلا جائے گا لیکن اگر اس پر کوئی سیاسی بیانہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس فیصلے کو معطل کروانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ قانونی ماہر محمود سدوزئی نے بتایا کہ جس طرح سزائوں کا سلسلہ جاری ہے، اس نے سارے عدالتی نظام کو بے نقاب کر دیا ہے، جو اس وقت ملک میں رائج ہے، توشہ خانہ کیس میں ان کو 14، 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے، اس میں حق دفاع ختم کر دیا گیا ہے۔انہوںنین کہاکہ یہ فوجداری قانون ہے اور کہا جاتا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ 99 لوگوں کو آزاد جانے دیا جائے، بجائے اس کے کہ ایک بے گناہ کو سزا دی جائے۔

مزید کہا کہ اس کیس میں رولز اینڈ ریگولیشنز تو پڑھے نہیں ہیں، اگر پڑھے ہیں تو ان کو نہیں پتا کہ طریقہ کار کیا ہوتا ہی محمود سدوزئی نے بتایا کہ کسی بھی شخصیت کو جب باہر سے کوئی تحفہ ملتا ہے، اس کے لیے کسٹم کا پرنسپل اپریزر وہ اس کی قدر کی اپریزمنٹ کرتا ہے، اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ یہ پیسے دے دیجیے اور تحفہ لے جائے، گھڑی باقاعدہ اپریزمنٹ کے بعد بانی پی ٹی آئی کو ملی۔ انہوں نے کہاکہ اپریزر کا بیان ریکارڈ پر نہیں ہے، اسی طرح ملٹری سیکریٹری کا بیان ریکارڈ پر نہیں ہے، گزشتہ روز انہیں سائفر کیس میں بھی سزا سنائی گئی۔ماہر قانون محمود سدوزئی نے کہا کہ سائفر کیس میں عمران خان کا بیان جج صاحب لکھ رہے ہیں، انہوں (بانی پی ٹی آئی)نے کہا کہ میں خود بتائوں گا کہ میرا کیا بیان ہے، جبکہ شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا اور ان کو سزا ہو گئی، تو یہ اس انصاف کو دفن کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے عدالتی نظام میں اس قدر برے نظائر موجود ہیں، جو دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہیں، یہ کیس بھی اسی طرح ہے، یہ بھی وہی ڈرامہ ہے، کوئی نئی چیز نہیں ہے، اور یہ حقائق اور قانون کے خلاف ہے۔

ایڈووکیٹ اویس احمد نے کہا کہ اگر ملزمان موجود نہیں بھی ہیں، تو فیصلہ سنایا جاسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں اور بھی بہت سارے معاملات ہیں، توشہ خانہ کیس میں ابھی تو ان کے 342 کے تحت بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوئے، ٹرائل ہی مکمل نہیں ہوا۔ انہوںنے کہاکہ آرٹیکل 10 اے کے تحت تو یہ آئین سے غداری ہے، یہ آرٹیکل بنیادی حقوق میں شامل ہیں کہ قانونی عمل مکمل ہونا چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ ایک شخص کو سزا دینے کے لیے آئین کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے، یہ معاملہ آگے جانے والا ہے۔اویس احمد نے کہا کہ ٹرائل نا مکمل ہونے کی صورت میں جس طرح یہ سزا سنائی گئی ہے، یہ برقرار نہیں رہ سکے گی، اپیل دائر ہو اور عدالت زرا بھی قانون اور آئین کا احترام کرے تو یہ سزا 5 منٹ میں معطل ہو جائے گی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں