اسلام آباد(پی این آئی)معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میرنے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر کو پتہ تھا کہ جیل کے اندر ٹرائل ہورہا ہے آخر کار انہیں سزا تو دینی ہے،سب کو پتہ تھا کہ 8فروری سے پہلے پہلے سزا ہونی ہے،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔
ان کا جو موقف پہلے تھا ابھی بھی وہی ہے میرا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا سے پی ٹی آئی ووٹرز اور سپورٹرز کے موقف میں پہلے سے زیادہ شدت آئے گی۔ حامد میر نے کہاکہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا غیر متوقع نہیں ہے،اسلام آباد میں باخبر لوگوں کو پتہ تھاکہ 8فروری سے پہلے عمران خان کو دو تین مقدمات میں سزا سنائی جائے گی،اس کی وجہ یہ تھی جس جج صاحب کی عدالت میں کیس کی سماعت ہو رہی تھی،یہ جج صاحب بہت سے وزرا اعظم کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتے رہے ہیں،ان کو 2012میں لایا گیا تھا اس وقت یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے،اس کے بعد انہوں نے راجہ پرویز اشرف کیخلاف مقدمے کی سماعت کی، پھرشاہد خاقان عباسی کیخلاف مقدمے کی سماعت کی،پھر 2018میں نوازشریف کو سزا دی اور 10سال قید کی سزا دی تھی،پھر انہی جج صاحب نے عمران خان کو 14 سال قید کی سزا سنائی اورایک ارب 57کروڑ بھی جرمانہ بھی کر دیا۔
حامد میر نے کہاکہ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ جب 2018میں یہی جج صاحب نوازشریف کیخلاف کیس کی سماعت کررہے تھے،اس وقت بھی انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو درخواست کی تھی کہ مجھے نوازشریف کیخلاف مقدمات کی سماعت سے علیحدہ کردیا جائے، لیکن ان کی درخواست قبول نہیں ہوئی تھی،اب جب وہ 14مارچ 2024کو ریٹائر ہونے والے ہیں،انہوں نے ایک بار پھر درخواست دی کہ میں بیمار ہوں تو مجھے چھٹی دی جائے، جج محمد بشیر نے 14مارچ تک چھٹی مانگی تھی اس کے بعد انہوں نے ریٹائرڈ ہو جانا تھا،انہوں نے کوشش کی کہ عمران خان کیخلاف مقدمات کی سماعت سے علیحدہ ہو جائیں لیکن ان کی چھٹی کی درخواست منظور نہیں ہوئی،باامر مجبوری انہیں سماعت کرنا پڑی اور آج انہوں نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو بھی سزا سنا دی ہے۔
سینئر صحافی نے کہاکہ کل سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا ہوئی اس پر تحریک انصا ف کے کچھ رہنما کہہ تھے کہ نوازشریف کا کیس کچھ اور تھا اور عمران خان کا کیس کچھ اور تھا،اب ان کے پاس کہنے کی گنجائش نہیں بچی کہ وہ دونوں کے کیس مختلف ہیں کیونکہ عمران خان اور نوازشریف دونوںکو ایک ہی جج نے سزا دی ہے،عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنائی گئی ہے جو کہ کرپشن کا کیس ہے،نوازشریف کوبھی ایون فیلڈ کیس میں سزا دی گئی تھی،اب حساب دونوں کا برابر کر دیا گیا۔حامد میر نے کہاکہ کل بھی میری بہت سے لوگوں سے بات ہوئی تھی ان سب کو کافی عرصےسے پتہ تھا،سائفر کیس بھی اوپن ٹرائل تو نہیں تھا،آج توشہ خانہ کیس بھی اوپن ٹرائل تو نہیں ہوا،2018میں نوازشریف کیخلاف مقدمات کی سماعت اس طرح نہیں ہورہی تھی جس طرح عمران خان کیخلاف ہو رہی ہے،پی ٹی آئی کے ووٹر اور سپورٹر کو پتہ تھا کہ جیل کے اندر ٹرائل ہورہا ہے آخر کار انہیں سزا تو دینی ہے،سب کو پتہ تھا کہ 8فروری سے پہلے پہلے سزا ہونی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، ان کا جو موقف پہلے تھا ابھی بھی وہی ہے بلکہ ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ شدت آئے گی۔انہوں نے کہاکہ جولائی 2018میں سب کو پتہ تھا کہ الیکشن سے پہلے پہلے نوازشریف کو سزا ہو جائے گی بالکل اسی طرح ہوا ، ہمیں بھی 100فیصد نہیں 200فیصد یقین تھا کہ 8فروری سے پہلے پہلے عمران خان کو سزا ہونی ہی ہے،تحریک انصاف کو سیاسی طور پر فائدہ ہورہا ہےکیونکہ 2018میں نوازشریف کو سزا سنائی گئی تھی ان کو فائدہ ہوا تھا ان کی مقبولیت بڑھی تھی۔حامد میر نے کہاکہ الیکشن کا رزلٹ عوامی رائے کی عکاسی نہیں کرتا ،2018کے الیکشن میں عوامی رائے کی عکاسی نہیں ہوئی تھی اسی طرح 2024میں جو فیصلہ ہوا ہے اس کا عمران خان کو سیاسی فائدہ ہےان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا،لیکن 8فروری کے الیکشن میں وہ مقبولیت ظاہر نہیں ہو گی،قانونی اعتبار پر دیکھا جائے تو 2018میں نوازشریف کو نقصان ہوا تھا 2024میں عمران خان کو نقصان ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں