لاہور (پی این آئی) انتخابات سر پر ،ماحول ہی نہیں بن پارہا، ایک بے دلی، بے کیفی، عدم دلچسپی کی کیفیت ہے۔
الیکشن کے تناظر اور بلحاظ تیاری تحریک انصاف کئی مدوں میں برتر ہے۔ آزاد امیدواروں کی بڑی تعدادکے جیتنے کے امکانات نے گیم تبدیل کر دی ، پہلی دفعہ انوکھا تجربہ ، ’’مادر پدر آزاد‘‘ انتخابات کی کوکھ سے ’’مادر پدر آزاد جمہوریت‘‘ نے جنم لینا ہے۔ ’’نظام نمبر 37 ” کا شدت سے انتظار ہے۔معروف تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔اپنے کالم بعنوان “مادر پدر آزاد الیکشن “میں حفیظ اللہ نیازی نےلکھا ہے کہ گو مگو کی کیفیت ضرور، 8فروری کا الیکشن ’’ہونا‘‘ ٹھہر گیا ہے۔ بعد از الیکشن ، نظام کچھ اس طرز کا کہ جسکی ہئیت کماحقہ پہلی دفعہ متعارف ہونی ہے۔ 76سال کے قلیل عرصہ میں 32وزرائےاعظم، 4مارشل لاء یعنی 3 درجن انواع و اقسام کے نظام دیکھ چکے ہیں۔ عظیم قائد نے آزادی کے موقع پر مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ بتایا، عظیم ڈکٹیٹر نے اس کو ’’تاحیات آرمی چیف‘‘ رہنے کی تگ و دو میں تاقیامت پریکٹس فیلڈ بنا ڈالا ۔آج ہم نظام نمبر 37آزمانے کو ہیں۔ انتخابات سر پر ،ماحول ہی نہیں بن پارہا، ایک بے دلی، بے کیفی، عدم دلچسپی کی کیفیت ہے ۔ مین سٹریم جماعتوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ہر زبان زدِ عام، زیر بحث ہیں۔
8 فروری کے الیکشن کے تناظر اور بلحاظ تیاری تحریک انصاف کئی مدوں میں برتر ہے۔ 2سال سے اپنے کارکنوں کو الیکشن کیلئے متحرک کر رکھا ہے۔ جلسے جلوس، لانگ مارچ، سروے پروپیگنڈہ، سوشل میڈیا کا بہیمانہ استعمال، الیکشن کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ جس مقدار میں عمران خان نے (حق یا مخالفت ) سوشل یا مین سٹریم یا الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر قبضہ جمایا ہے، ماضی میں نظیر ڈھونڈنانا ممکن ہے ۔حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ رائے عامہ عمران خان پارٹی کو اقتدار میں لانے کی خواہش مند ضرور، آج ووٹ کے بکس سے محروم ہے ۔ پارٹی قیادت اور اکثر ٹکٹ ہولڈر اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن چکے ، اسٹیبلشمنٹ کیلئے راوی چین لکھ رہا ہے۔ آدھا الیکشن، آخری دن ہی ، کروڑوں روپوں کے حساب سے پیسہ درکار ہے، جو کہ موجود نہیں ہے۔نواز شریف سیاست پر بھی ایک نظر ، ذاتی طور پر 10 اپریل 2022 ء کے بعد سے یقین کہ (ن) لیگ سیاست ابدی نیند سو گئی تھی ۔
عمران اسٹیبلشمنٹ جھگڑے نے سارے سیاستدانوں کو غیر متعلق بنا دیا۔ حالیہ ، جب کل IPOR اور دو دن پہلے بلوم برگ کے سروے سامنے آئے تو بڑے بڑے جغادری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نواز شریف کا گراف اوپر جا رہا ہے، عمران خان کا زعم زمین بوس ہو گیا ۔واضح طور پر اشارہ کہ 8فروری کا الیکشن نواز شریف بھاری اکثریت سے جیت رہے ہیں ۔ شروع میں نواز شریف صاحب کو وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی یقین دہانی کرائی گئی۔ جون میں جیسے استحکام پاکستان پارٹی وجود میں آئی، وطنی سیاست نے ہچکولہ لیا ۔ نواز شریف اور زرداری جون ہی میں دبئی پہنچے اور سر جوڑنے پر مجبور ہو گئے ۔نواز شریف جو اس سے قبل 8بار پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں ، پہلی بار کئی ہفتے ٹکٹوں کے انٹرویو اور میڈیا کے ذریعے پیغام عام کرتے نظر آئے ۔کہنے میں حرج نہیں کہ وزیراعظم بننے یا حکومت لینے میں عدم دلچسپی واضح کرنے کی ایک واردات تھی ۔
بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ تحریک انصاف کو نشان نہ ملنا، یعنی آزاد امیدواروں کی بڑی تعدادکے جیتنے کے امکانات نے گیم تبدیل کر دی ۔ازل سے فیصلہ اٹل، آزاد امیدواروں نے استحکام پارٹی میں جاناہے اور استحکام پارٹی کا( ن) لیگ سے الحاق ہونا ہے۔ مگر نواز شریف کیلئے ایسی سیاست میں ہر گز آسودگی نہ ہوگی۔ نواز شریف کی بڑھتی مقبولیت سے انکو قطعی اکثریت مل گئی تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے آخری پلان کے برخلاف ہوگی۔ میری اپنی جمع تفریق میں مسلم لیگ (ن) کو 90/95 ، پیپلز پارٹی کو 50/55 ، آزاد امیدواران 60/70 ، جبکہ 30/35 دیگر جماعتیں۔ نواز شریف حکومت لیں یا نہ لیں مملکت کا نظام نمبر 37 ” وکھری ٹائپ ” کا رہنا ہے ۔ پہلی دفعہ انوکھا تجربہ ، ’’مادر پدر آزاد‘‘ انتخابات کی کوکھ سے ’’مادر پدر آزاد جمہوریت‘‘ نے جنم لینا ہے۔ ’’نظام نمبر 37 ” کا شدت سے انتظار ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں