اسلام آباد(پی این آئی)انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے رپورٹ کے مطابق 2023 کے دوران سولر پینلز میں نصف کی حد تک گراوٹ آئی ہے۔
اس وقت بھی قیمتیں گر ہی رہی ہیں۔ سولر پینلز بنانے والے لاگت میں کمی پر توجہ دے رہے ہیں اور جدت پر بھی متوجہ ہیں تاکہ فروخت میں اضافہ ہو اور منافع کی گنجائش بھی بڑھے۔وفاقی حکومت کی جانب سے بھی مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں سولر پینل کی مینوفیکچرنگ، بیٹریز کی تیاری، انورٹر کے خام مال اور مشینری کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
انڈیا میں سولر سسٹم کے لیے کتنا خرچ آتا ہے؟
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آن لائن مصنوعات فروخت کرنے والی ویب سائٹ ’ایمازون‘ پر بھارت میں کم سے کم قیمت والا سولر سسٹم 25 ہزار روپے میں لگانے کی پیشکش کی جا رہی ہے جس میں ایک چارج کی جانے والی بیٹری، ایک انورٹر اور ایک سولر پینل ہو گا جس کے لیے کم از کم 80 مربع فٹ چھت کا رقبہ ہونا چاہیے۔اسے مکان، دکان اور دفتر کے لیے بوقت ضروت قابل عمل بتایا جا رہا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ 25 ہزار والے سولر سسٹم پر ’زیادہ سے زیادہ ایک بلب اور ایک پنکھا ہی چل سکتا ہے اور کسی گھر کے لیے مناسب اور اچھا سولر سسٹم ڈیڑھ لاکھ روپے میں لگ سکتا ہے جس میں تین کلو واٹ بجلی کی فراہمی ہو گی۔ اسی طرح پانچ کلو واٹ کے سولر سسٹم کے لیے تقریبا ڈھائی لاکھ انڈین روپے تک کے اخراجات آئیں گے۔
انڈیا میں سولر سستا، پاکستان میں مہنگا کیوں؟
پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے اور یہاں تین کلوواٹ کا سولر سسٹم پانچ سے چھ لاکھ کے درمیان دستیاب ہے جبکہ پانچ کلو واٹ کے سسٹم کی قیمت 7 سے 9 لاکھ کے درمیان ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں سولر پینلز کے کام سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان میں سولر سسٹمز کی قیمتوں میں سب سے بڑا فرق تو دونوں ملک کی کرنسیوں کی قدر میں پایا جانے والا فرق ہے۔
پاکستان میں سولر پینلز کی قیمت میں 50 فیصد سے زائد کمی ریکارڈ
ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں تو شاید تین کلو واٹ کا سولر سسٹم ڈیڑھ لاکھ روپے میں نصب ہونا ممکن ہے لیکن پاکستان میں ایسا بالکل ناممکن ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایسے سسٹم کے لیے سستے سے سستا انورٹر جو دستیاب ہو گا اُس کی قیمت 75 ہزار روپے ہے اور بیٹری تقریباً 20 سے 25 ہزار روپے کی لگا لیں، باقی سولر پینلز وغیرہ کا خرچہ اس میں شامل کریں تو یہ انڈیا کے مقابلے میں اچھا خاصا مہنگا ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں