جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس ثاقب نثار میں کوئی فرق نہیں رہا، سینئر صحافی حامد میر

لاہور (پی این آئی) سینئر صحافی حامد میر کے مطابق آج کے فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ثاقب نثار میں کوئی فرق نہیں رہا۔

تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کر دیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سینئر صحافی حامد نے کہا کہ یہ ویسا ہی فیصلہ ہے جیسا سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کیخلاف ثاقب نثار نے دیا تھا۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ آج کے فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ثاقب نثار میں کوئی فرق نہیں رہا۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کو انتخابی نشان سے محروم کیا تھا، جبکہ اب جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا۔

 

 

آج ثابت ہو گیا سپریم کورٹ میں کوئی 2 گروپس نہیں ہیں بلکہ صرف ایک گروپ ہے جو ایک پارٹی کے حق میں اور دوسری پارٹی کیخلاف استعمال ہوتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے کے بعد جس نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دینا تھا اب وہ بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دے گا۔

 

 

واضح رہے کہ تحریک انصاف سے “بلا” چھن گیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے حق میں فیصلہ سنا دیا، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان واپس کرنے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بحال کر دیا۔

 

فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیم سا آرڈر ہے، تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہیں، فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا۔ کیس سننے والے بینچ کے تینوں ججز نے متفقہ طور پر تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو ساڑھے 9 بجے سنایا جائا تھا تاہم اس میں تاخیر ہوگئی اور رات سوا گیارہ بجے کے بعد چیف جسٹس نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

 

 

سپریم کورٹ نے 2 گھنٹے تاخیر سے محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کو منظور کیا اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کا تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلے کو بحال کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ ایک وقت میں 2 ہائیکورٹس میں ایک کیس نہیں چل سکتا۔

 

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے عام انتخابات 2024ء میں حصہ لے سکتے ہیں۔ جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے بھی محروم ہوجائے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانے کے حوالے سے 2021 میں نوٹس جاری کر کے جون 2022 تک الیکشنز کا وقت دیا، پھر تحریک انصاف کو مزید موقع دیتے ہوئے 20 روز کا وقت دیا گیا اور انہیں متنبہ کیا گیا کہ اگر انٹراپارٹی انتخابات کے نتائج جمع نہ کرائے گئے تو پھر انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا۔

 

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جو پانچ رکنی بینچ کے پاس زیر التوا ہے اور پھر اُس درخواست کو واپس نہیں لیا گیا، پھر پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو بائیس دسمبر تک انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کا حکم دیا تاہم تحریک انصاف نے درست انداز سے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرائے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کروانے پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لیا، جس پر تحریک انصاف نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا۔

 

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ تحریک انصاف کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا بلکہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر 13 جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ اور اُن سے بھی انتخابی نشان واپس لیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحریک انصاف نے انتخابات نہیں کرائے اور انٹرا پارٹی الیکشنز کے حوالے سے دائر 14 درخواستوں کو ہائیکورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کیا کہ درخواست گزاروں کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، اس لیے یہاں آمریت نہیں چل سکتی، قانون کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کرانا ہوتے ہیں، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے، ، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں ہوئے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا درخواست سے تجاوز تھا۔

 

بعد ازاں عمران خان کی جانب سے نامزد کیے گئے تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ دن سے اندازہ تھا کہ کیسا فیصلہ آئے گا، سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلوں میں ایک اور اضافہ ہو گیا، انصاف صرف ہونا نہیں چاہیئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کریں گے۔

 

بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ بلا رہے نہ رہے، عوام عمران خان کو ووٹ دیں گے۔ جس سیاسی جماعت کی مقبولیت ہے اسے تکنیکی پوائنٹس پر الیکشن سے باہر کر دیا گیا۔ ہماری تیاری پوری ہے، بھرپور طریقے سے الیکشن میں حصہ لیں گے، ہم سے انتخابی نشان لیا گیا ہے لیکن ہماری پارٹی رجسٹرڈ ہے۔ ہماری پارٹی کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا گیا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں