اسلام آباد (پی این آئی) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کےخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔
محفوظ کیا گیا فیصلہ آج ہی سنائے جانے کا امکان ہے، سماعت کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتمام وکلاء نے بہترین معاونت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں، ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ فوج کا لفظ استعمال نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آرہی، آپ یہ الزام لگاسکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ کی درخواست پر 12دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی، آپ کی جماعت خوش تھی،سب خوش تھے، آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا، جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہوگا، جب آپ کو الیکشن کمیشن نے پہلا نوٹس جاری کیا، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سےآئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں اگر وہ سچے ہیں، جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپ کو نوٹس کیا تھا، ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہوگی، اچانک الزام لگانا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پراثرانداز ہو کرکچھ کر رہی ہے ہم اس بات کو یقینی طور پر سنیں گے۔
اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپ کا یہ الزام نہیں ہوگاکہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔پی ٹی آئی وکیل نے کہا الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے نہیں مانیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں لڑنے نہیں دیا؟ جس پر علی ظفر نے کہا کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے، چیف جسٹس نے کہا ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو، آپ تسلیم کرلیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟آپ کو سیاست چاہیےجمہوریت نہیں چاہیے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کےمطابق انتخابات ہوں گے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر ایسا حکم نہیں دے سکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ ایسی بات ہےکہ پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ ہے،کھیلے نہیں مگر سرٹیفکیٹ مل گیا، پارٹیوں میں بڑےعہدوں پربڑی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے احترام میں ان بڑی سیاسی شخصیات کےخلاف کاغذات جمع نہ کرائے گئے ہوں۔
جو چھوٹے عہدے ہیں ان پربھی بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے، اس طرح پارٹی انتخاب کی ساکھ نظر نہیں آتی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا فرض کریں کوئی بھی الیکشن لڑنے نہیں آیا تو کیا الیکشن کالعدم ہو جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا پوری جمہوریت پر چلیں گے، لنگڑی لولی والی بات نہیں ہو گی، اگر 8 فروری کو 326 ارکان کوبلامقابلہ جتواکر آجائیں تو میں ایویں نہیں مانوں گا، سرکار 326 امیدواروں کو ان کےگھروں میں بند کردے اور 326 امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرائے، قانونی طور پر تو الیکشن ہوگا لیکن میں تو اسےالیکشن نہیں مانوں گا، سوچ سمجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پارٹیوں کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہیے، کاغذ کے ٹکڑوں پر نہیں چلتا ایک چیز ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے ویب سائٹ پر تو اعلان نہیں کیا۔
مخصوص لوگوں کو کیسے پتا کہ الیکشن ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی الیکشن کےکاغذات نامزدگی ویب سائٹ پر بھی تھے اور صوبائی الیکشن کمیشن میں بھی تھے ، پارٹی الیکشن ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ تو پھرآپ تسلیم کر رہےہیں کہ آپ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی، آپ کےآئین میں درج ہےکہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن 2 سال بعد اورباقی عہدیداروں کا 3سال بعد ہونا ہے، سب جانتےہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پرکون کون لوگ موجود ہوتے ہیں، شاید عزت میں یا کسی اور وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے انٹراپارٹی الیکشن بلامقابلہ ہوئے ہیں تو پھرآپ کےمطابق جوپشاورکےعلاقے چمکنی میں اتنے لوگ اکٹھے تھے وہ کیوں آئے، کیا وہاں کسی نے بھی کسی ایک عہدیدارکے بلامقابلہ منتخب ہونے پر سوال نہیں اٹھایا؟ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ہر جماعت کے پاس ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اس لیڈرکی عزت کےتحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے معذرت کےساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا، کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔علی ظفر نے کہا اگر یہ بھی سمجھ لیاجائےکہ انٹرا پارٹی انتخابات کے مقام پرکوئی نہیں آیا تو بھی الیکشن پر سوال نہیں ہو سکتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا بیرسٹرگوہر یا آپ نے پی ٹی آئی کب جوائن کی؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا میں نےکچھ عرصہ قبل سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جبکہ علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر پہلے پیپلز پارٹی میں تھے، چیف جسٹس نے کہا تو ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کی بات پریقین کریں جو 2 سال پہلے آیا، اکبرایس بابرپر نہ یقین کریں جو بانی رکن ہیں؟ علی ظفر نے کہا اکبر ایس بابر کو 2018 میں پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا دکھائیں برطرفی کا لیٹر،کل سے یہی تو مانگ رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا اکبر ایس بابر پارٹی ممبر نہیں ہیں تو اس کے ثبوت دکھائیں، جس پر علی ظفر نے کہا مجھے پارٹی کی ہدایات ہیں کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر درخواست گزار رکن نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کو ہدایات کس نے دی ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی چیئرمین کی ہدایت ہے کہ درخواست گزار ممبر نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہدایات وہ چیئرمین دے رہے ہیں جو 2 سال پہلے پارٹی میں آئے۔علی ظفر بولے پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا، آپ کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی الیکشن لڑنے دیا جائے بس اتنی سی بات ہے، آپ کو ان کی شکل کیوں بری لگتی ہے اگر ایک آدھ سیٹ لے بھی گئے تو کیا ہوگا۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا اکبر ایس بابر بانی ارکان میں سے نہیں ہیں۔
یہ بھی پتا چل گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا پتا کیا چل گیا ان کا قد کاٹھ آپ سے کہیں زیادہ ہے، علی ظفر آپ نے کب پارٹی جوائن کی، جس پر علی ظفر بولے میں نے تو ابھی حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہےڈیڑھ سال پہلے، میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں نہیں تھا۔علی ظفر نے کہا 20 نومبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کا اعلان ہوا جو میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا، بانی پی ٹی آئی نے کس کو چیئرمین نامزدکیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ بانی پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟کل بانی پی ٹی کہہ دیں کہ میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا۔
نیازاللہ نیازی کب پی ٹی آئی کا حصہ بنے؟ علی ظفر نے کہا نیاز اللہ نیازی 2009 سے پی ٹی آئی کے رکن ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچرکا تاثر مل رہا ہے، علی ظفر نے کہا پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلاشخص الیکشن نہیں لڑ سکتا، پینل بنانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں ہے؟ علی ظفر اس پر بولے ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے۔تحریک انصاف کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کہا میرا بیٹا تو لا کلرک کے لیےآپ کےپاس آیا تو اس سے بھی پی ٹی آئی کے سوال ہوئے، مجھے پتا ہے سارا، مسٹرعلی ظفر، یہ لائیو ٹیلی کاسٹ ہے اور مجھے یہ کہنا چاہیے، مجھےتو یہ بھی علم نہیں کہ نیازاللہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے اور وہ میرے سامنے پیش ہوا، اس قسم کا الزام لگا رہے ہیں جو انتہائی نامناسب ہے، اگرآپ اس عدالت کے وقار کو گرانا چاہتے ہیں توگراتے رہیں۔
میرا خیال ہے یہ نہیں رک رہے ہمیں اٹھ جانا چاہیے، یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے ہم پھر سماعت کو مکمل کر لیتے ہیں۔نیاز اللہ نیازی نے کہا ہمارا سینٹرل آفس لاک ہوا ہے، ای سی پی کو سارا ریکارڈ ہم نے جمع کرا دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا میراخیال ہےکہ آپ کے وکیل اور چیئرمین پی ٹی آئی بات کر رہے ہیں، علی ظفر لگتا ہے کہ آپ کے الیکشن کمشنراور چیئرمین آپ پر اعتماد نہیں کر رہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ وہ خود آ کر دلائل دے دیں۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا میں نیاز اللہ نیازی کا الزام خود پر لیتا ہوں کہ کاغذات داخل نہ کر سکے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا دراصل چیئرمین پی ٹی آئی خود بھی وکیل ہیں اس لیے وہ آرام سے سن نہیں پا رہے، جسٹس مسرت ہلالی کی بات کے دوران نیاز اللہ نیازی نے بولنا شروع کر دیا، جس چیئرمین پی ٹی آئی نے نیاز اللہ نیازی کو ٹوکتے ہوئے کہا آپ نہ بولیں۔نیاز اللہ نیازی نے کہا آپ پوچھ رہے ہیں کہ الیکشن کیا ہوا کیسے ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم آپ سے بات نہیں کر رہے، یا تو علی ظفر صاحب سےکہیں کہ وہ آپ کے وکیل نہیں ہیں تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
علی ظفر ایڈووکیٹ نیاز اللہ نیازی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپ رہنے اوربیٹھنےکا کہتے رہے۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا چمکنی میں جہاں الیکشن ہوا وہاں پی ٹی آئی کا دفتر موجود ہے، آفس کے ساتھ ہی گراؤنڈ ہے جہاں پر الیکشن ہوا، فیصلہ ہوا کہ اگرپولنگ ہوئی تو نشتر ہال میں ورنہ پھرگراؤنڈ میں منعقد ہو گا، پارٹی آئین کہتا ہے الیکشن پینل کے ذریعےہوں گے یہ واضح نہیں کہ ایک شخص لڑ سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا آپ کے آئین میں لکھا ہےکہ چیئرمین پارٹی براہ راست خفیہ ووٹ سے منتخب ہوگا، فرض کریں آپ نے عہدہ چھوڑ دیا، الیکشن ہوا توکیا ووٹنگ نہیں ہوگی، ووٹنگ یہ بھی ہو سکتی ہے میں کسی کوپسندنہیں کرتا یا پارٹی پسند نہیں کرتی، میں ووٹ نہیں دیتا، تو آپ منتخب تو نہیں ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہم نےالیکشن کمیشن سے آپشن لےکر سکیورٹی فراہم کرنےکا کہا، الیکشن کمیشن نے آئی جی کوپشاور میں سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے خط لکھا، جیسے جیسے لوگ آتے گئے۔
میڈیا پر مطلع کیا جاتا رہا، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کیا مقام کا بتایاگیاتھا کہ کہاں انتخاب ہو رہا ہے؟ علی ظفر نے کہا جب آئی جی کو خط لکھ دیا تھا تو انہیں بتا دیاگیا تھا، پولیس نے سائٹ کا دورہ کیا اور تمام نیوزپیپرز نے جگہ کے بارے میں خبر دی، عوام کو علم تھا۔چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ایک بھی شخص نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا، عام انتخابات میں بھی ہوتا ہےکہ ہر شخص الیکشن لڑ سکتا ہے چاہے ووٹ نہ ملیں، عام انتخابات میں بھی ہوتاہےکہ اتنی تعداد میں ووٹ ہوں ورنہ دوبارہ انتخابات ہوں گے، ایسے تو پی ٹی آئی آمریت کی طرف جا رہی ہے، کسی اور کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات لڑنےہی نہیں دیا، سینیٹ میں بھی اگر ایک بھی ووٹ نہ پڑےتو وہ منتخب نہیں ہوتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا ایسے تو میں بھی سینیٹ میں بلامقابلہ سینیٹر بنا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی کی پوری باڈی بغیر مقابلےکے آئی، پی ٹی آئی میں لوگ الیکشن سےنہیں سلیکشن سے آئے، اگر 6 پینل تھے اور 6 کے 6 منتخب ہوگئے تو پھر اجتماع کی کیا ضرورت تھی؟پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا پارٹی آئین کے مطابق عوامی طور پر نتائج کا اعلان کرنا پولنگ وینیوپر ضروری تھا، وینیو پر 500 سے سوا 500 لوگ جمع ہو گئے تھے، عدالت سوال پوچھتی ہے وکیل اس کا جواب دیتا ہے تو اس طرح کا ماحول ہمیں بنانا چاہیے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے لیکن پھر آپ نے آئین بدل لیا، حامد خان صاحب نے تو پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ وہ بانی رکن ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کو جانچنے کا اختیار نہیں دیتا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر پارٹی فنڈ سے متعلق جانچنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہےتوپارٹی الیکشن کے انتخابات نہ جانچنے کا اختیار کیسے نہیں۔سپریم کورٹ میں بلے کے نشان سے متعلق سماعت مکمل کرلی اور الیکشن کمیشن کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ محفوظ فیصلہ کچھ دیر تک سنایا جائے گا، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہمیں سانس لینے دیں، اپنے ساتھ ججز سے بھی مشاورت کرنا ہو گی۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے ، دلائل جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں