اسلام آباد(پی این آئی)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ میرا ذاتی ہے۔
میں اس الیکشن کو بے مقصد سمجھتا ہوں اور ہم نے کوشش نہیں کی کہ الیکشن سے مقصد نکالا جائے ۔مسلم لیگ ن کی موجودہ سیاست سے اتفاق نہیں کرتا۔ حکومت 9 مئی کی تحقیقات کرانے میں ناکام رہی ہے۔سیاسی رہنماوں کی ناکامی ہے کہ وہ ملک کیلئے راستے کا تعین نہیں کر سکے۔ ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ علاقے کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ الیکشن لڑوں لیکن الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ میرا ذاتی ہے جس کا اظہار 6 ماہ پہلے کر دیا تھا تاہم نواز شریف جب بھی بلاتے ہیں میں جاتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مری کے حلقے کیلئے پارٹی کو مشورہ دیا تھا کہ کارکن کو ٹکٹ دیا جائے اب مری حلقہ میں کارکن کو ٹکٹ ملا یا نہیں اس کا فیصلہ عوام کریں گے اور جس سیاست کے ساتھ ن لیگ کھڑی ہے میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد ہو گا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی۔ ہم پارٹی سے کچھ نہیں مانگ رہے جبکہ مظاہر نقوی کے خلاف چارجز تھے تو انہوں نے سمجھا کہ استعفیٰ دے دوں اور کچھ ججز کا دباو بھی ہوتا ہے کہ باتیں منظر عام پرآنے سے بہتر ہے استعفیٰ دے دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن سینئر جج تھے پتہ نہیں انہوں نے کیوں استعفیٰ دے دیا اور اگر جسٹس اعجاز الاحسن نے اصولوں پر استعفیٰ دیا ہے تو وہ بتانے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن میں جب بھی ابہام پیدا ہو گا تو اس کا نقصان ہو گا اور بلے کا نشان پارٹی کا ہے اسے چلنے دیں جبکہ الیکشن لڑنے کا اختیار آئین دیتا ہے اور ووٹ ڈالنے کا بھی آئین اختیار دیتا ہے۔ آپ کیسے جج کر سکتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیسے ہوئے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں سیاست دانوں کو جیل بھیجنے کا قائل نہیں ہوں اور 9 مئی کو اتنے ماہ ہو گئے ہیں اس کی تحقیقات حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت 9 مئی کی تحقیقات کرانے میں ناکام رہی ہے۔ پی ڈی ایم کو 9 مئی کو پراسیکیوٹ کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنے میں کہا ہے بطور وزیراعظم کوئی کوتاہی تھی تو تیار ہوں اور اگر اس وقت ہماری حکومت نہیں تھی تو خواجہ آصف وزیر خارجہ کس کے تھے۔ حکومت کابینہ سے چلتی ہے وزیر اعظم کے پاس کل اختیار نہیں ہوتے اور میرے اوپر بطور وزیر اعظم کوئی دباو نہیں تھا تمام فیصلے مرضی سے کئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول ہے اور ہر جماعت اقتدار میں رہی ہے اس کی سوچ کے بارے میں عوام کو پتہ ہے۔ کہہ رہے ہیں کہ بجلی مفت دے دوں گا مگر ایک یونٹ نہیں دے سکتے اور آپ عوام کو جا کر کیا سوچ دیں گے کہ حکومت آنے کے بعد کیا کروں گا۔
ہر آدمی تسلیم کرتا ہے کہ نیب نے ملک کو مفلوج کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب آپ منشور میں بھی باتیں نہیں لکھ سکتے تو پھر الیکشن کو چھوڑیں اور کیا جیلوں میں ڈالنے اور گالیاں دینے سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا؟ ایک سال سے کہہ رہا ہوں کہ سب جماعتیں مذاکرات کے لیے بیٹھیں اور اگر مل کر نہیں بیٹھیں گے تو مسائل کیسے حل کریں گے ؟ سیاسی جماعتیں اپنی کابینہ تو عوام کے سامنے رکھیں اور ہر جماعت بتائے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کس کس کو وزیر بنائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں