اسلام آباد (پی این آئی) نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان مقبولیت کا فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے اور اس حوالے سے صورتحال وہاں جا پہنچی ہے جہاں یہ 2018ء کے الیکشن کے موقع پر تھی۔
ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنے نشان کے ساتھ بھی الیکشن لڑے تو مقابلہ بڑا سخت ہونے کا امکان ہے کیونکہ سوشل اور روایتی میڈیا میں رائج عام تاثر کے برعکس ن لیگ نے نمایاں طور پر اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کرلیا ہے حتیٰ کہ خیبرپختونخوا میں بھی مقابلہ آسان نہ ہوگا۔گیلپ پاکستان کی جانب سے کیے گئے سروے میں بتایا گیا کہ نواز شریف کے لاہور آنے سے ایک ہفتہ قبل تک پی ٹی آئی کی مقبولیت ن لیگ سے 15 فیصد زیادہ تھی۔15 دسمبر سے 7 جنوری کے درمیان ہونے والے تازہ ترین سروے کے مطابق یہ فرق اب کم ہو کر چار فیصد رہ گیا ہے۔
سروے میں ملک بھر سے پانچ ہزار افراد سے رائے حاصل کی گئی۔ جن لوگوں نے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے انہوں نے یہ رائے اس لئے دی کہ وہ بلّے کو ووٹ دینا چاہتے تھے۔ سکڑتے فرق کے حوالے سے مذکورہ بالا رائے پنجاب کے بارے میں ہے۔ سب سے بڑے صوبے کے تین علاقوں جنوبی، وسطی اور مغربی پنجاب میں مقبولیت کا فرق تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہ محض ایک سے دو فیصد ہے۔ چونکہ رائے دہندگان نے دو سے تین فیصد کی غلطی کے مارجن کو بھی مدنظر رکھا، لہٰذا اس حد تک فرق ناقابل غور ہے۔تاہم، شمالی پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت ن لیگ کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔
اس خطے میں زیادہ تر راولپنڈی ریجن کے اضلاع شامل ہیں۔ اس خطے کو مارشل بیلٹ بھی کہتے ہیں کیونکہ فوج میں بھرتی ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔عام طور پر رائے دہندگان کا خیال ہے کہ فوجی، حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں، سیاسی طور پر بھی بڑے پیمانے پر اپنے ادارے سے وفادار رہتے ہیں اور اس کا ثبوت چند ماہ قبل کیے گئے ایک سروے میں بھی ملتا ہے۔سروے میں اس ریجن کے لوگوں کو جوابی توازن سمجھا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی تمام صفوں میں بھی مقبول جماعت ہے۔
پنجاب کی نبض کی بات کریں تو ایک اور سروے میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ (آئی پی او آر) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر طارق جنید کا کہنا ہے کہ 2018 میں ن لیگ کی جیتی ہوئی سیٹیں بڑی حد تک برقرار ہیں۔ان کی تنظیم فی الوقت ن لیگ کے ساتھ مل کر مختلف حلقوں کے سروے کر رہی ہے تاکہ انتخابات کیلئے بہترین امیدواروں کا تعین کیا جا سکے۔طارق جنید کا کہنا تھا کہ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن میں ن لیگ ممکنہ طور پر 2018میں جیتی ہوئی نشستیں برقرار رکھے گیگیلپ پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال گیلانی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو موجودہ صورتحال میں بعض مشکلات کا سامنا ہے اور اس صورتحال کے ووٹرز پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی موجودہ سطح شاید اسے الیکشن میں نہ جتوا سکے بالخصوص جب انتخابات میں ایک ماہ باقی رہ گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ 2018میں دونوں جماعتوں نے مجموعی طور پر تقریباً یکساں تعداد میں ووٹ حاصل کیے تھے۔ جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کو شامل کرکے صورتحال کو تبدیل کیا گیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں