اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں جہاں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں سماعت کے دوران عمران خان آبدیدہ ہوگئے جس پر انہیں ٹشو کا ڈبہ فراہم کیاگیا جبکہ کچھ دیر کے لیے سماعت بھی موخر کردی گئی، اس سلسلے میں سینئر صحافی جاوید چوہدری نے سماعت کا مکمل احوال اپنے ولاگ میں شیئرکیا ہے۔جاوید چوہدری نے بتایا کہ ’عمران خان جیل کے اندر ہیں اور جب سماعت شروع ہوئی تو وہ رو پڑے اور باقاعدہ پھر جیل کے عملے کو انہیں ٹشو پیپر دینے پڑے اور جب وہ آنکھیں صاف کر رہے تھے تو وہاں اتنا سوگوار سا ماحول پیدا ہو گیا کہ جج صاحب بھی اپنی سیٹ سے اٹھ کرچلے گئے،نیب کے وکیل امجد پرویز چلتے چلتے عمران خان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ بات کر لیں ہم تھوڑی دیربعد دوبارہ واپس آتے ہیں، پھر آدھے گھنٹے بعد دوبارہ عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔
اڈیالہ جیل میں دراصل عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فرد جرم عائد ہونا شیڈول تھی لیکن عدالتی وقت پر عمران خان نہیں آئے اور بشریٰ بی بی بھی نہیں پہنچیں ، دیگر فریقین اور وکلا موجود تھے ،لطیف کھوسہ نے بشری بی بی کی طرف سے ایک دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی اور ساتھ ہی کہا کہ باہر وکلا موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی شخص کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ، لہذا بطور احتجاج میں بھی واپس جارہا ہوں، یہ دراصل ایک طریقہ تھا کہ اس طرح فرد جرم عائد نہیں ہوپائے گی تاہم جب فرد جرم عائد ہونے کا وقت آیا تو فاضل جج نے پوچھا کہ بشری بی بی یہاں آئی ہیں؟
بتایا گیا کہ بشری بی بی آج تشریف نہیں لائیں کیونکہ ہفتے کے دن ہی بشری بی بی نے یہ کہہ دیا تھا کہ آپ پیر کی بجائے اگر آپ منگل کو سماعت کر لیں تو حاضر ہوسکتی ہوں، اب ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی آچکی ہے ۔ ’اس کے بعد جج صاحب نے کہا کہ عمران خان کہاں ہیں ؟ ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل آفتاب اپنی نشست سے اٹھے اور باہر چلے گئے، واپس آکر بتایا کہ عمران خان تھوڑے مصروف تھے، پانچ منٹ میں پہنچ رہے ہیں ، تقریباً دس منٹ بعد عمران خان پہنچے تو وہ جج کے ساتھ خاصے ناراض دکھائی دیئے اور آتے ہی انہوں نے کہا ’جج صاحب یہ کیا ہو رہا ہے ،ہر انسان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں، مجھے انسانی حقوق بھی نہیں مل رہے ، آپ مجھے سابق وزیر اعظم کے ہی حقوق دے دیں‘۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہوا؟
عمران خان نے بتایا کہ آپ نے حکم دیا تھا کہ میرے بیٹوں کے ساتھ بات کروائی جائے لیکن پچھلے پانچ مہینوں سے بیٹوں سے میری بات نہیں کروائی گئی ،میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں اور جب میں ان سے (جیل حکام سے )بات کرتا ہوں کہ عدالت کا حکم ہے اور آپ یہ حکم عدولی کر رہے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی تحریری حکم نامہ نہیں ملا۔اس پر عدالت نے متعلقہ عملہ کو بلا کر سرزنش کی ، عملے کا کہنا تھا کہ سینئر حکام سے بات کرکے عدالت کو آگاہ کریں گے ۔ پھر عمران خان اس جگہ پہنچ گئے جہاں ان کے فیملی ممبران موجود تھے۔
اپنی بہنوں سے ملے اس کے بعد تھوڑی دیر بعد وہاں پہ سسکیوں کی آواز آئی اور ایسے محسوس ہوا جیسے کوئی رو رہا ہے پھر لوگوں نے یہ دیکھا کہ جیکٹ پہنے سفید مونچھوں والا جیل کا ایک سٹاف افسر اندر سے نکلا جس کے ہاتھ میں ٹشو کا ڈبہ تھا ، عمران خان کی طرف گیا اور اس نے ٹشو فراہم کیے، عمران خان نے اپنے آنسو ان ٹشوئوں سے پونچھنے شروع کر دیے، پتہ چلا کہ عمران خان باقاعدہ وہاں پر رو رہے ہیں اور شاید وہ اپنے بیٹوں کو یاد کر رہے تھے ، ظاہر ہے وہ ایک والد ہے اور پانچ مہینوں سے اگر ان کی بچوں کے ساتھ بات نہیں ہوئی تو انسان کا جذباتی ہونا قدرتی ہے ۔اس کے بعد عدالت میں عجیب سماں پیدا ہوگیا اور فاضل جج بھی کچھ ڈسٹرب (disturb) ہوگئے ، دائیں بائیں دیکھا اور پھر سماعت دس منٹ کیلئے موخر کرنے کا آرڈر سنادیا۔
فاضل جج کے نشست چھوڑنے پر عدالتی عملہ اور نیب کے لوگ بھی ایک ایک کرکے باہر چلے گئے،نیب کے وکیل امجد پرویز آگے بڑھے اور کچھ فاصلے پر ہی رک کر عمران خان سے کہا کہ آپ اپنی فیملی سے ملیں، آپ کھل کے بات کریں ، ہم واپس آتے ہیں۔سماعت کے موقع پر عمران خان کے تین وکلاشعیب شاہین، شیراز رانجھا اور عمیر نیازی بھی رنجیدہ دکھائی دیئے، ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کس طرح خان صاحب کو تسلی دیں‘۔جاوید چوہدری کا مزید کہناتھاکہ میرا خیال ہے کہ عمران خان صاحب اپنے بیٹوں سے بات نہ ہونے کی وجہ سے خاصے جذباتی تھے اور پہلی مرتبہ کسی نے عمران خان کو عدالت کے اندرروتے ہوئے دیکھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں