اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام سے پاکستان مسلم لیگ نون اور اس کی ہم نوا جماعتوں کو ‘واک اوور‘ مل گیا ہے اور پاکستان کے عام انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہو گئے ہیں۔
یاد رہے اس سے پہلے ملک کے کئی حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھیننے، ان کے تجویز اور تائید کندگان کو اغوا کرنے اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے تھے۔ جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نےبتایا کہ اتنے بڑے پیمانے پر معمولی باتوں کو جواز بنا کر ایک خاص جماعت کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کا مسترد کر دیا جانا پری پول دھاندلی ہے جس سے یہ الیکشن تو متنازعہ ہوا ہی ہے لیکن اب اس الیکشن کے نتائج اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی متنازعہ ہوگی اور ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہو پائے گا۔ ”اتنی بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی کا مسترد کیے جانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ عوام کے حق رائے دہی کے لیے ان سے ایک اہم آپشن چھین لیا گیا ہے۔ اب آخری امید عدلیہ ہی ہے۔ ‘‘ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے کاغذات لاہور کے بعد میاں والی سے بھی مسترد کر دیے گئے ہیں۔
ان پر اعتراض کیا گیا کہ ان کے تجویز کنندہ اور تائیدکنندہ ان کے انتخابی حلقے سے نہیں ہیں اور وہ توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہیں اس لیے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی الیکشن سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جن دیگر رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں ان میں اعظم خان سواتی، مراد سعید، زلفی بخاری، حماد اظہر، یاسمین راشد، علی محمد خان، محمد عاطف، اعجاز چوہدری ، قاسم سوری، اسد قیصر، علی امن گنڈا پور، شہریار آفریدی، پرویز الٰہی، مونس الٰہی، زرتاج گل، نعیم حیدر پنچوتھا، شہریار تراکئی، تیمور ظفر جھگڑا، جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، صنم جاوید اسجد ملہی، اور عامر اللہ نیازی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے اور بیٹی، عثمان ڈار کی والدہ، عمر ڈار کی اہلیہ ، فواد چوہدری اور انکی اہلیہ حبا فواد ، کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے ہیں ۔ جمشید دستی، شیخ رشید ، راشد شفیق، سبطین خان، اور بلوچ رہنما اختر مینگل بھی انتخابی عمل سے باہر ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما سرادار لطیف کھوسہ نے ایک نجی ٹی وی کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے نوے فی صد مرکزی رہنماؤں کے کاغذات مسترد کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے تاحیات نا اہل کیے جانے والےنواز شریف کے کاغذات کیسے منظور کیے جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمدنواز شریف، نون لیگ کے صدر شہباز شریف،چیف آرگنائزر مریم نواز شریف ، حمزہ شہباز شریف ، عابد شیر علی کے کا غذات نامزدگی منظور کر لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ رانا ثنا اللہ، عطا تارڑ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور رانا مشہود سمیت پارٹی کے تمام مرکزی رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح چیئرمین پیپلزپارٹیبلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری، اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور،کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔ استحکام پارٹی کے جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، فردوس عاشق اعوان کے کاغذات بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جاوید ہاشمی، فاروق ستار بھی الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار پا گئے ہیں۔ ابرار الحق،عثمان بزدار،جام کمال، یوسف رضا گیلانی، چوہدری نثار صادق سنجرانی کے کاغذات بھی منظور ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں کے کاغذات منظور ہوئے ہیں ان میں لطیف کھوسہ، عامر ڈوگر، شفقت محمود، سلمان اکرم راجہ اظہر صدیق اور شفقت محمود شامل ہیں۔
معروف تجزیہ کار فاروق حمید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایک ایسے موقعے پر جب دنیا کی نظریں پاکستانی انتخابات پرلگی ہیں، الیکشن کا پہلا راؤنڈ ہی متنازعہ ہو گیا ہے اور سفید پوش لوگوں کے ذریعے کاغذات چھینے جانے اور بڑے پیمانے پر ایک خاص جماعت کے امیدواروں کے کاغذات کے مسترد کیے جانے سے کوئی اچھا پیغام نہیں دیا جا رہا ہے، اس سے عوامی ٹیکسوں سے الیکشن پر لگائے جانے والے اربوں روپوں کے ضیاع کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ” اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور معاشی بحران کا کوئی حل نکلے تو پھر الیکشن کمیشن کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔‘‘ سینیئر تجزیہ کار اور پاکستان کے ایک قومی روزنامے سے وابستہ کالم نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ، مار پیٹ ، تشدد اور گرفتاریاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن انتے بڑے پیمانے پر تجویز اور تائید کندگان پر تشد اور ان کا اغوا پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ سلمان کے بقول ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ موقف درست تھا کہ انتخابات انتظامیہ کی بجائے عدلیہ کے ذریعے کروائے جانا چاہیے تھے۔ سلمان عابد کے مطابق اب کاغذات کے بڑے پیمانے پر مسترد کیے جانے کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچے گا، اس کو بنیاد بنا کر انتخابی شیڈول میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے اس طرح آٹھ فروری کے مجوزہ الیکشن پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اب معاملہ عدلیہ کی کورٹ میں ہے۔ یہ صورتحال عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے مابین ٹکراؤ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا،”میرے خیال میں جن لوگوں کا نو مئی کے واقعات میں کوئی حصہ نہیں ان کا راستہ نہیں روکا جانا چاہیے تھا۔‘‘ جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں انہوں نے الیکشن ٹریبونل میں اپیلیں دائر کرنا شروع کر دی ہیں۔ ایسے امیدوار تین جنوری تک اپنی اپیلیں دائر کرا سکتے ہیں اور الیکشن ٹریبونل دس جنوری تک ان اپیلوں پر فیصلے جاری کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ اس ضمن میں کیسا طرز عمل اختیار کرتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں