گارنٹی دیتا ہوں 3سال کے اندر اقتدار عمران خان کی دہلیز پر ہوگا، عمران خان کے بڑے ناقد تجزیہ کار کا دعویٰ

لاہور (پی این آئی) رائے عامہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے میچ کے حتمی نتیجے کے انتظار میں ، باقی بحثیں ضمنی ہیں۔

سیاسی صورتحال کچھ یوں کہ عمران خان جیل میں ہوں یا باہر ، دونو ں صورتیں انکے وارے میں ہیں ۔ آج کے حالات کے تناظر میں گارنٹی دیتا ہوں کہ3 سال کے اندر اقتدار عمران کی دہلیز پر ہوگا ( دہلیز چاہے جیل کی ہو یا گھر کی ) ، بشرطیکہ موصوف نے اپنی جان بچا لی ۔سینئر تجزیہ کار و کالم نگارحفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشاف کر دیا ۔

اپنے بلاگ بعنوان “8 فروری، فیصلے کی گھڑی!” میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ نواز شریف انتہائی دانشمندی سے اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ، اصولی سیاست اور تلخ زمینی حقائق دونوں کو لیکر چلنا ہے ۔ اگر نواز شریف 1993 ، بعد ازاں 2018 میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ نہ اپناتے تو آج سیاسی ردی کا حصہ ہوتے۔ عمران کے حالات اس سے بھی بد تر، اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر اقتدار ملاتواپنی سیاست کا سوا ستیاناس کرا بیٹھے۔8 فروری کا دن ، عوام الناس، عمران خان کی ذات سے جوڑ چکے ہیں۔ رائے عامہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے میچ کے حتمی نتیجے کے انتظار میں ، باقی بحثیں ضمنی ہیں ۔ سیاسی صورتحال کچھ یوں کہ عمران خان جیل میں یا باہر ، دونو ں صورتیں انکے وارے میں ہیں ۔

آج کے حالات کے تناظر میں گارنٹی دیتا ہوں کہ3 سال کے اندر اقتدار عمران کی دہلیز پر ہوگا ( دہلیز چاہے جیل کی ہو یا گھر کی ) ، بشرطیکہ موصوف نے اپنی جان بچا لی ۔ مملکت ایک بے ہنگم سیاسی دلدل میں دھنس چکی ہے ۔ ملک کے سیاسی ، انتظامی نظم و نسق ، آئینی موشگافیاں، قانون کی حکمرانی سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر ہے ۔ نگران حکومتیں فقط کارپوریٹ مینجرز اور کچھ بھی نہیں ۔ بالفرض محال 8 فروری کو الیکشن کرابھی دیئے گئے ،نتائج کچھ بھی نکلیں ،کسی طور اسٹیبلشمنٹ اختیارات کی کُلی منتقلی نو منتخب حکومت کو نہیں کر پائے گی ۔

اپنے کالم میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ پچھلے چند مہینوں میں کئی ارادے باندھ کر توڑ چکی ہے ۔ مثلاً
منصوبہ A : وزیراعظم نواز شریف کی اکثریتی حکومت مع ممکنہ 4 صوبائی حکومتیں بھی ۔
منصوبہB : بصورت عدم الیکشن ایک قومی حکومت کی تشکیل ۔
منصوبہ C : وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومتیں ، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور KP میں فضل الرحمن کی مخلوط حکومت
منصوبہ D : الیکشن کے بعد وفاق اور صوبوں میں قومی حکومتیں ( تحریک انصاف شامل ) ۔

ایسے تمام منصوبوں میں مشترک ایک ہی، وزیراعظم نواز شریف ہی ۔ قطع نظر نواز شریف اس بھان متی کے کنبہ کی سربراہی قبول کریں گے یا نہیں؟ بظاہر انکے اعصاب پر اس وقت اپنے ووٹر ز سپورٹر ز کو متحرک کرنے کا بھوت سوار ہے، سخت بیانیہ اپنا رہے ہیں۔اپنے کالم کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ میرا اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ ، 70 سال سے آزمودہ ناکامی کہ’’ زورِ بازو پر کرتے ہیں بھروسہ‘‘، وطنی سیاست چلانے کیلئے کیا آج کوئی دوسرا ہنر بھی آزمانے کو ہے؟ کاش ! عمران خان کی ذات کو ہدف ضروربناتے مگر ایسا حربہ بھی استعمال میں لاتے کہ رائے عامہ عمران سے بد دل رہتی ۔ آج اسٹیبلشمنٹ پر رائے عامہ کی تقسیم ، ادارے کیلئے زہر قاتل ، ملک دشمن فائدہ میں ہیں ۔ یہ بات سمجھانا ذرا مشکل ، عمران خان سیاست چوراہے پر ،محفوظ راستہ ایک ہی ، عمران خان نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کریں اور اپنا مستقبل سنواریں ۔

بصورت دیگر سیاسی افراتفری میں ملک کا نقصان ، سیاسی جماعتوں کا مستقبل تاریک اور اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوگی۔ پھر دُہراتا ہوں ، عمران خان کی سیاست کا مستقبل نواز شریف کی سیاست سے نتھی ہے۔ نواز شریف ناکام ہوئے تو عمران خان بھی تاحیات فارغ ۔ ملک جس مقام پر آن پہنچا ہے ، معروضی حالات میں، اسٹیبلشمنٹ کا ماؤرائے آئین اختیارات اپنے پاس رکھنا آج انکی مجبوری ہے۔ خدشہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا بصورت انتخابات کا انعقاد، ہر دونوں صورتوں میں آئینی نظام شاید دوبارہ پٹڑی پر نہ چڑھ سکے۔ کاش! اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف اور عمران خان مل بیٹھتے، تاکہ وطن عزیز کو اس دلدل سے نکالنے کا کوئی سبب بن پاتا۔ وطن کی فکر کسی کو ہے بھی یا نہیں؟

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں