تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو کس کے زیر اثر ہوگی؟ حفیظ اللہ نیازی کا تجزیہ

لاہور ( پی این آئی )فروری مارچ میں بھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے،بصورت الیکشن ، اگر تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو پھر وہ عمران خان کے زیر اثر نہیں ہو گی، یہ بات بھی طے سمجھیں، اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے۔

سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشافات کر دیئے۔ اپنے بلاگ بعنوان “عام انتخابات، کیا سے کیا ہونے کو؟” میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا ہے کہ نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنیوالی ریاست، 76سال بعد، آج بھی اپنی شناخت کی جستجو میں سر گرداں اور طالع آزماؤں کی نیٹ پریکٹس بن چکی ہے۔ جدید مہذب معاشروں کے جتنے اعلیٰ و ارفع معیار اقدار ،صلہ رحمی، انسانی حقوق ، اخلاقی وقانونی ضوابط، قانون کی حکمرانی ، ادائیگی ٹیکس اورتہذیب و تمدن کے پیمانے، بحیثیت قوم ہم اسکو روند چکے ہیں۔ کرپشن، جھوٹ، چوری، فواحش، حسد ، غیبت، لاقانونیت، فراڈ، ملاوٹ، نوسر بازی، دھوکا دہی، جعلسازی، منافقت کونسا ایساہنر، جس میں کسب کمال نہ ہو۔ ہر کوئی جہاں جس جس مد میں گوڈے گوڈے ملوث ، ڈھٹائی سے انہی مدوں پر شاکی ہے ۔آج وطن عزیز کے مستقبل کیساتھ سوال ایک ہی نتھی ،’’ 8 فروری کو الیکشن ہو پائیں گے یا نہیں‘‘ ؟ اپنے بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نےلکھا کہ سانحہ 9 مئی کے بعد میرا مؤقف حتمی ،’’بصورت الیکشن ، اگر تحریک انصاف الیکشن میں موجود ہوئی تو پھر وہ عمران خان کے زیر اثر نہیں ہو گی۔

مزید ، عام انتخابات میں نشستوں کی بندر بانٹ یقینی رہے گی ( بعینہ جیسے 2018 میں حصہ بقدر جثہ )۔یہ بات بھی طے سمجھیں ، اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے‘‘ ۔ جب نگران حکومتیں وجود میں آئیں تو اسٹیبلشمنٹ نے بنفس نفیس اپنی سہولیات اور خواہشات کےمطابق تشکیل دیں ۔یعنی کہ دونوں قائدین کے مطالبات ثمر آور نہ ہوئے ۔اسٹیبلشمنٹ کوئی مطالبہ کسی خاطر میں نہ لائی تاکہ آنیوالے دنوں کی سیاسی حکمت عملی عین اپنے مطابق رکھ سکے۔ میرے خدشات آج بھی ،’’فروری مارچ میں بھی الیکشن نہیں ہو سکیں گے‘‘ ۔وجہ صاف ظاہر ہے ، سانحہ 9 مئی کے بعد’’اصلی تے نسلی‘‘ تحریک انصاف عملاً معذور ہو چکی تھی ۔ساری قیادت یا جیل میں یا معافی تلافی یا زیر زمین تھی ۔ سیاسی حالات اسٹیبلشمنٹ کے عین مطابق اور عام انتخابات کرانے کے موافق تھے ۔ مرضی کے نتائج بھی ممکن تھے ۔کوئی وجہ تو ہوگی کہ مردم شماری کے نتائج شائع کر کے الیکشن ملتوی کروانا پڑے ۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے 8فروری کی تاریخ دے دی اور سپریم کورٹ نے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ، میرا سوال ! کیا 8 فروری تک ملتوی کرنے کی’’وجہ‘‘درست ہو چکی ؟ میری سوئی وہیں پہ اٹکی ہے کہ’’فروری میں الیکشن نہیں ہو پائیں گے‘‘۔

اپنے بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نے مزیدلکھا کہ مجھے اس سے غرض نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یقیناً آج سیاہ و سپید کی مالک ، دلجمعی اور خلوص نیت سے الیکشن کروانا چاہتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں خصوصاً پیپلز پارٹی بھی شدومد سے الیکشن کی متمنی ۔ تحریک انصاف اپنی مقبولیت کے زعم میں الیکشن کے لئے تڑپ رہی ہے ،بد قسمتی! الیکشن شاید نہ ہو پائیں۔ اگر ساری سہولت کے باوجود،’’ 8نومبرتک الیکشن نہ کروائے گئے تو اسکی کوئی وجہ نزاع تو تھی؟کیا آج وہ’’وجہ نزاع‘‘دور ہو چکی ہے؟۔میرا خدشہ ، کہ وہ’’ وجہ نزاع‘‘ نہ صرف موجود بلکہ شدت پہلے سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔ اگرچہ تحریک انصاف برضا و رغبت اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثرآ چکی، اسٹیبلشمنٹ کیلئے آسودگی کا سماں ہے ۔ ’پروجیکٹ نئی تحریک انصاف‘‘کو کے پی میں اور سند ھ میں کھل کر سیاست کرنے کی اجازت مل چکی ہے ۔ کے پی میں تحریک انصاف کے ورکرز دل کی خوب بھڑاس نکال رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نئے عہد و پیماں متاثر ہوئے بغیرپی ٹی آئی کا سیاسی گہما گہمی پر اترانا بنتا ہے ۔ اگر الیکشن ہو گئے تو کئی درجن نشستیں بھی ملیں گی۔ اپنے بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو کریڈٹ ، ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنیوالی تمام سیاسی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ کیلئے باجماعت نیک خواہشات و جذبات رکھنا ، انکے اورمملکت کیلئے نیک شگون ہے۔

معیشت میں حرکت حوصلہ افزا اور خوش آئند ضرور، اسکی برکت اسٹیبلشمنٹ ہی سمیٹے گی ۔ اگرچہ اکانومی کی بحالی بھی الیکشن میں رکاوٹ بننی ہے ۔ عمران خان کی موجودگی رنگ میں کیا بھنگ ڈالے گی؟خاطر جمع ، جب تک عمران خان کے مقدمات عدالتوں میں ، انتخابی مہم بگاڑ کی زد میں ہی رہنی ہے ۔ میری مانیں !الیکشن کے انعقاد سے پہلے ، ماحول ہی نہیں بن پائے گا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں