اسلام آباد (پی این آئی ) نگران وفاقی حکومت نے آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت داخلہ نے آئی جی اسلام آباد اور وفاقی دارالحکومت کے ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھ دیا، اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں الیکشن کمیشن کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دونوں افسران کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ بتایا جارہا ہے کہ حکومت سے الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کو تبدیل کرنے کا کہا گیا، اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن نے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کو بھی تبدیل کرنے کی ہدایت کی تھی، اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن نے اسٹبشلمنٹ ڈویژن کو دونوں افسران کے تبادلے کے لیے مراسلہ ارسال کیا۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن سے سابقہ حکومت کے ابھی تک تعینات وفاقی سیکرٹریز کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں، نگران دور حکومت میں الیکشن کمیشن کے حکم پر افسران کے ٹرانسفر کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابقہ حکومت کے ابھی تک تعینات وفاقی سیکرٹریز کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، اس حوالے سے عدالت کہا ہے کہ اسلام آباد پولیس میں سابقہ حکومت کے تعینات افسران کے اب تک کتنے تبادلے ہوئے؟ الیکشن کمیشن سابقہ حکومت کے مختلف محکموں اور اداروں میں تعینات افسران کے تبادلے کے اپنے حکم پر آئندہ منگل تک بلا امتیاز عمل کرائے، الیکشن کمیشن ٹرانسفرز میں پک اینڈ چوز نہیں کر سکتا اگر الیکشن کمیشن نے اپنے حکم پر پک اینڈ چوز پر عمل کرایا تو انفرادی ٹرانسفر آرڈر معطل کر دیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگران حکومت میں شامل وزراء اور بیوروکریٹس پر سوالات اٹھائے ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کہتے ہیں کہ ’جو لوگ وائٹل رول ادا کر رہے ہیں وہ پچھلی حکومت میں بھی تھے، اب اِس نگران حکومت میں اُن کی لائن پر ہیں، کیوں پِک اینڈ چوز کیا جارہا ہے؟ الیکشن کمیشن تعصب پر مبنی فیصلوں پر نظر ثانی کرے‘۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سی ڈی اے میں تعینات ڈیپوٹیشن افسران کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عدالتی حکم کے باوجود ڈی جی الیکشن کمیشن کی عدم پیشی پر اظہارِ برہمی کیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ’ڈی جی کی بیٹی کی شادی ہے اس لیے نہیں آئے‘۔
سماعت کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’آپ تبادلے کے نوٹیفکیشن کی زبان دیکھیں جس میں کہا گیا اس غلط آدمی کو ہٹا کر اچھے آدمی کو لگایا جائے، ایسے ٹرانسفر کیا جاتا ہے؟ آپ اپنا اسٹیٹس خراب کر رہے ہیں اسی لیے ڈی جی کو بلایا تاکہ نوٹی فکیشن ان کی نظر سے گزرے، اس نوٹیفکیشن میں ترمیم نوٹ کریں اور چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو بتائیں۔ درخواست گزار وسیم حیات باجوہ کے وکیل نے اپنے دلائل میں وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہا کہ ’پوسٹنگ پر اتنا وقت ضائع کرتے ہیں تو الیکشن کیسے کروائیں گے؟ ہم گھر گئے تو سی ڈی اے والے باہر کھڑے تھے کہ گھر خالی کریں، جو قانون یہ بتا رہے ہیں اس پر تو چیئرمین سی ڈی اے کو بھی تبدیل ہونا چاہیے، صرف پروپوزل کا لیٹر لکھا ہوا تھا اور انہوں نے اٹھا کر ٹرانسفر کردیں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ بتائیں اس نوٹیفکیشن میں ترمیم کب کریں گے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ’ سی ڈے اے کا بھی لیٹر آیا ہوا تھا ہم نے اس پر ٹرانسفر کی، وسیم حیات باجوہ کے خلاف کوئی انکوائری التواء میں نہیں تھی‘۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ’ سی ڈی اے ایک خودمختار ادارہ ہے، بادی النظر میں درخواست گزار کو سی ڈی اے نے انتقام کا نشانہ بنایا، الیکشن کمیشن کو موقع دیا جا رہا ہے اس نوٹیفکیشن میں ترمیم کی جائے اور چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کریں جو نوٹیفکیشن جاری ہو رہے ہیں ان کو دیکھیں‘، اس کے ساتھ ہی عدالت نے درخواست گزار ممبر سی ڈی اے وسیم حیات باجوہ کو حاصل سہولیات واپس نہ لینے کا حکم دیتے ہوئے درخواست گزار کو گھر خالی کرنے سے روک دیا جب کہ الیکشن کمیشن نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت کو ترمیم کی یقین دہانی کرائی، جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے میں ترمیم کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں