اسلام آباد(پی این آئی)سینئر صحافی جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے بلوچستان کا میلہ لوٹ لیا ہے۔
بلوچستان میں کلین سویپ کرنے کے بعد اقتدار میں آنے کے لیے انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ن لیگ 2024 کے انتخابات میں آسانی سے اپنی حکومت بنا لے گی۔یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کوئٹہ میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور بلوچستان کی 5 سیاسی جماعتوں نے ن لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد کا فیصلہ کیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ لگ رہا ہے کہ 2024 کے انتخابات کے بعد نواز شریف مرکز اور بلوچستان میں آسانی کے ساتھ حکومت بنا لیں گے۔ جاوید چودھری کے مطابق پاکستان میں جب بھی کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے، کوئی حکومت لانی ہو یا گرانی ہو اس کا آغاز عموماً بلوچستان سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بلوچستان آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، وہاں ووٹرز کی تعداد بھی کم ہے اور قومی اسمبلی کی سیٹیں بھی باقی صوبوں سے تھوڑی ہیں۔ بلوچستان میں تمام سیٹیں الیکٹ ایبلز کے پاس ہوتی ہیں۔ قبائلی سسٹم ہونے کی وجہ سے وہاں کے قبیلوں کے سربراہ ہی ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہوتے ہیں۔
کوئی پارٹی بھی اگر عبدالقدوس بزنجو، نوابزادہ لشکری رئیسانی، محمد اسلم رئیسانی، اختر مینگل، عبدالواسع، محمود خان اچکزئی جیسے سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملا لے تو معاملات اس کے کنٹرول میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا بلوچستان میں سیاسی تبدیلی بہت آسانی سے لائی جا سکتی ہے۔ جاوید چودھری کے مطابق 2017 تک جب نواز شریف کی حکومت تھی تو ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سب سے پہلے بلوچستان میں بغاوت پیدا کی گئی۔ نواب ثناء اللہ خان زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کی جماعت نیشنل پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کا اتحاد تھا۔ آصف زرداری نے سیاسی بساط پر ایک چال چلی اور راتوں رات وہاں ایک نئی پارٹی بن گئی جس کا نام بلوچستان عوامی پارٹی المعروف باپ پارٹی رکھا گیا۔ اس پارٹی نے ثناء اللہ خان زہری کی حکومت ختم کر کے اپنے کنٹرول میں لے لی۔ اس جماعت کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ بعدازاں اس کا کریڈیٹ متعدد بار آصف زرداری نے خود لیا اور کہا کہ دیکھیں میں کوئٹہ گیا اور وہاں سے نواز شریف کی حکومت گرا دی۔ پھر باپ پارٹی ہی کے ایک رہنما صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ مقرر کیا گیا۔ اس دوران یہ نعرہ بھی لگایا گیا تھا؛ ‘ایک زرداری سب پر بھاری’۔ جب سینیٹ میں بھی تبدیلی آ گئی تو اس کا نقصان نواز شریف کو یہ ہوا کہ ان کا اقتدار کمزور پڑنے لگا۔
اس کے بعد 2018 میں تبدیلی کی لہر کے تحت عمران خان اقتدار میں آ گئے جس کے بعد مسلم لیگ ن اور نواز شریف مکمل طور پر پیچھے ہٹ گئے۔ باپ پارٹی نے عمران خان کے ساتھ اتحاد کر لیا اور جب تک عمران خان کا اقتدار رہا، باپ کے اپنے وزرا بھی رہے اور پارٹی کو بہت ساری سہولیات بھی حاصل رہیں۔ لیکن جب 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو سب سے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی نے ان کا ساتھ چھوڑا۔ جیسے ہی باپ پارٹی سائیڈ پر ہوئی عمران خان کی سیاست کا شیرازہ بکھر گیا۔ عمران خان کی بھرپور کوشش کے باوجود بلوچستان عوامی پارٹی ساتھ کھڑی نہیں ہوئی تو اس وقت مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ بیان دیا گیا کہ چونکہ باپ کے باپ نے کہہ دیا ہے تو اب باپ پارٹی عمران خان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ جاوید چوہدری کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 16 ماہ میں 2 آپشنز تھے۔ ایک یہ کہ وہ آصف زرداری کے ساتھ مل جائیں جس کے لیے متعدد ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ان دنوں یہ باتیں بھی گردش کرنے لگی تھیں کہ چونکہ آصف زرداری ڈیل میکر ہیں تو وہ کوئی نہ کوئی ڈیل بنا ہی لیں گے اور اس کے نتیجے میں شاید بلاول بھٹو وزیر اعظم بن جائیں۔ آصف علی زرداری نے خیبر پختونخوا سے بھی امیدیں لگائی ہوئی تھیں اور ان کا یہ خیال تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد الگ ہونے والے رہنما پیپلز پارٹی میں آ جائیں گے اور کسی نہ کسی ڈیل کے تحت آئندہ حکومت ان کے ہاتھ میں آ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ باپ نے خودمختار ہونے کا اعلان کر دیا اور پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بن گئی۔ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کا ایک الگ گروپ بنا لیا۔
جب آصف زرداری کو محسوس ہوا کہ آئندہ حکومت ان کی نہیں بنے گی تو وہ سائیڈ پر ہو گئے۔ دوسری جانب جب نواز شریف وطن واپس آئے تو ان کو علم تھا کہ اس بار اکیلے جیت مشکل ہے اور اتحاد کی ضرورت ہے تو انہوں نے ن لیگ کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات سے قبل ہی اتحاد بنانا شروع کر دیے۔ سب سے پہلے انہوں نے ایم کیو ایم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پھر نواز شریف بلوچستان گئے اور سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کیں جس کے نتیجے میں 5 بڑی جماعتوں نے ن لیگ کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی جس کے 11 ایم این ایز ہیں، انہوں نے ملاقات کے بعد ن لیگ سے اتحاد کا اعلان کر دیا۔ پھر بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی سے ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے بھی اتحاد کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے 3 تگڑے سیاست دان بھی الگ ہو گئے جن میں لشکری رئیسانی اور محمد اسلم رئیسانی شامل ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں