اسلام آباد(پی این آئی)نیشنل بنک کے سابق ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ افتخار رسول انجم نے کہا ہے کہ ہم نیشنل بنک کے پینشنر ہیں، 13سال پہلے 1999میں نیشنل بنک نے ہماری پینشن کا ریٹ کم کردیااور اسے 70فیصد سے کم کر کے 33فیصد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف ہم عدالت میں گئے اور ہائی کورٹ کے سنگل بنک سے جیتے ، اس پر بنک اپیل میں چلا گیا اور ہم وہاں سے بھی جیتے ، پھر بنک اپیل میں سپریم کورٹ چلا گیا اور ہم وہاں سے بھی جیتے ۔2017ان کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ۔11ہزار پینشنرز کے حق میں فیصلہ ہونے کے باوجود بنک نے نظر ثانی کی اپیل دائر کردی، سپریم کورٹ میں چھ سال سے ہمارا نظر ثانی کا کیس چل رہا ہے ، اس کیس پر کوئی سٹے آرڈر بھی نہیں ہے اور اس کی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے زمانے میں میں تاریخیں بھی لگیں،اس کے بعد تین سال سے کوئی تاریخ نہیں لگی ، آج ً15نومبر کی تاریخ لگی ہے لیکن اس میں بھی نیشنل بنک کے وکیل خالد انور نے سماعت میں التوا کی درخواست دائر کردی ہے اور عدالت کو بتا یا ہے کہ میں اپنی خراب صحت کی وجہ سے مزید پیروی نہیں کر سکتا ، میں نے نیشنل بنک کو فائلیں واپس کردی ہیں، بنک کوئی نیا وکیل کرے ۔انہوں نے مزید بتا یا کہ تیرہ سال سے مہنگائی کہاں پہنچ گئی ہیں، اس عرصے کے دوران ہمارے 11ہزار پینشنرز کی پینشن منجمد کی ہوئی ہے ، 13سالہ سے بجٹ میں ملنے والا سالانہ اضافہ بھی بند ہے جس کا مطلب ہے کہ جس پینشنر کی 13سال پہلے پینشن 10ہزار تھی اس کی پینشن آج بھی 10ہزار ہی ہے، ہزاروں پینشنرز انتقال بھی کر چکے ہیں ۔
نیشنل بنک کے ریٹائرڈ ملازمین کے وکیل ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ یہ ایسے مقدمے ہیں جو روح کو توڑ دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پچیس سال سے یہ لوگ در بدر ہیں ، پینشن منجمد ہیں ، بہت سے لوگ مر چکے ہیں ، اس مقدمے کو لوگوں کی موت کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ مقدمہ کل بھی نہیں چلتا تو ہماری استدعا ہو گی کہ اس کو اگلے ہفتے رکھیں ، اس مقدمے سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ لوگ تو حیات رہیں ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں