اسلام (آئی این پی)صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ الیکشن کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کی تعریف کرتا ہوں،الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق نگران حکومتوں کو توجہ دینی چاہیے،چیئرمین پی ٹی آئی کا آئین بالادست ہونے کا یقین اچھا تھا لیکن حالات نے غلط ثابت کیا ۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کے معاملے کو حل کر کے اس کو پتھر پر لکیر قراردیا۔سپریم کورٹ اس معاملے کو خود دیکھ رہی ہے تو الیکشن ضرور ہوں گے۔
پورے پاکستان کی خواہش ہے کہ شفاف اور غیر جانبدار الیکشن ہوں ،سارے رہنمائوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے اور یہ ہی شفافیت ہوتی ہے، شفافیت کو دیکھتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز بھی دی تھی ۔سپریم کورٹ متحد ہو ئی ، سپریم کورٹ متحد ہو جائے تو اعتماد بڑھ جاتا ہے ، جب عدالتیں متحد ہوں تو یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ انصاف ہوگا، اگر مزید چیزوں میں پڑیں گے تو الیکشن کی تاریخ میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے ۔میں نے الیکشن کیلئے الیکشن کمشنر کو خط لکھا اور بلایا بھی ، حکومت کو لا منسٹری مشورہ دیتی ہے ، عدالت نے بھی کہا کہ صدر کو تاریخ دینی چاہیے تھی۔صدر کو مشورہ دینی والی حکومت اور وزارت قانون ہوتی ہے، حکومت اور وزارت قانون یہ کہتی رہی کہ صدر مملکت الیکشن کی تاریخ نہیں دے سکتے۔حکومت اور وزارت قانون کے مشورے کا پابند ہوں اور انہوں نے کہا کہ تاریخ نہ دیں ،حکومت اور وزارت قانون کی تجاویز کو سامنے رکھ کر بھی 6نومبر کی تاریخ دی ،میں نے تو 6نومبر یا اس سے پہلے کی تاریخ دیدی تھی۔میں نے الیکشن کیلئے 6نومبر کی تاریخ دی الفاظ کے چنائو میں فرق ہو سکتا ہے ، نگران وزیراعظم نے کہا کہ حکومت منصفانہ الیکشن کرائے گی ۔منصفانہ انتخابات پاکستان کی ضرورت ہیں ، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ،الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق نگران حکومتوں کو توجہ دینی چاہیے۔منصفانہ الیکشن سے متعلق بحث اس لئے ہے کیونکہ فی الحال اطمینان نہیں ،موجودہ سپریم کورٹ کے ہوتے ہوئے غالب امکان ہے کہ منصفانہ کیفیت پیدا ہو ،پاکستان کی ساکھ اور آئین صاف و شفاف الیکشن چاہتا ہے ۔افغان مسئلے کو وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھی اٹھایا ، افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دراندازی میں بھارت ملوث ہے،ہم نے افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کے شواہد بھی دئیے ۔منصفانہ الیکشن کیلئے الیکشن کمیشن ، وزیراعظم اور چاروں صوبوں کو مل کر کام کرنا ہو گا ،پاکستان کیلئے اہم ہے کہ پاکستان میں سکون ہو ، جو افغانستان کی طرف سے کیفیت ہے اس میں بھارت پورا ملوث ہے ۔تحریک انصاف اور پارٹی چیئرمین عدالتوں کے فیصلوں کے پابند رہیں گے،سپریم کورٹ پر بھی ذمہ داری ہے کہ ان چیزوں پر توجہ رکھے، انتخابات تک آنے والے3مہینے بہت اہم ہیں۔بہت ضروری ہے کہ درگزر کے ساتھ ایک دوسرے کو یکجا کیا جائے، چیئرمین پی ٹی آئی سے غلطی ہوئی کہ وہ سمجھتے رہے کہ آئین بالاتر رہے گا،چیئرمین پی ٹی آئی کا آئین بالادست ہونے کا یقین اچھا تھا لیکن حالات نے غلط ثابت کیا۔پی ٹی آئی کے استعفوں سے متعلق پارلیمنٹ بھی قلابازیاں کھاتا رہا، میرے چیئرمین پی ٹی آئی سے 27سالہ تعلقات ہیں،ملک کو درپیش مسائل کے حل موجود ہیں ، قیادت اس کا ادراک نہیں کررہی ہے۔ہمیں اب بھی اس چکر میں لگے ہیں کہ اس کو ہٹائواس کو گرائو، اس کو پکڑو، آئی ایم ایف 30سالوں سے کہہ رہا ہے کہ الیکٹ پر ٹیکس لگائو،اگر کسی خاص جماعت کیلئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے تو یہ نہیں ہونا چاہیے۔توشہ خانہ کے حوالے سے میرے سارے معاملات صاف ہیں، نوازشریف سے میری ممکنہ ملاقات سے متعلق باتیں درست نہیں ،نوازشریف اگر سیاسی جماعتوں کو بلاتے ہیں پی ٹی آئی سمیت سب کو مل بیٹھنا چاہیے۔ جب کشتی ہچکولے کھارہی ہو تو ادھر ادھر چھلانگیں مارنے کے بجائے مل بیٹھنا چاہیے،سانحہ 9مئی کی مذمت کی تھی اور قانون کو اپنا راستہ لینا چاہیے۔موجودہ آرمی چیف کی تقرر سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی مخالفت نہیں کی تھی، چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا تھا جنرل باجوہ کو پیغام دو کہ آرمی چیف لگانے کی چوائس اور فیصلہ آپ کا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان میں کرپٹ لوگوں کو پکڑا نہیں جاتا ، احتساب سے متعلق باتوں سے اتنا تھک گیا ہوں کہ کہتا ہوں کہ اب بس آگے چلو۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں