اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کرنے والے وکلاء کی فہرست تیار کرلی گئی، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے سابق وزیراعظم سے پوچھ کر لسٹ ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جیل انتظامیہ نے بتایا ہے کہ چیرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرنے والے وکلاء کی فہرست مرتب کر لی گئی ہے، پی ٹی آئی چیرمین سے 10 وکلاء کی ٹیم کو ملاقات کی اجازت ہو گی، وکلاء ٹیم میں حامد خان، بیرسٹر عمیر نیازی، بیرسٹر سلمان اکرم راجہ بیرسٹر علی ظفر شامل ہیں، بیرسٹر سلمان صفدر، لطیف کھوسہ، شعیب شاہین، علی گوہر، برہان معظم اور شیر افضل مروت بھی اس لسٹ میں شامل ہیں۔ جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ملاقات کی فہرست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی جمع کروائی گئی ہے، سپرنٹنڈنٹ جیل نے عمران خان سے پوچھ کر لسٹ ہائیکورٹ میں جمع کروائی، منگل اور جمعرات کو 10 رکنی وکلاء ٹیم کو پی ٹی آئی چیرمین سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔ معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو سہولیات کی فراہمی سے متعلق درخواست نمٹانے کا تحریری حکم جاری کردیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے فیصلہ جاری کیا۔
جس میں کہا گیا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے اقدام پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے اظہار اطمینان کیا، سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا فیملی ہفتے میں دو دن ملاقات کی درخواست دے تو قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کے آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ کی دلیل کو مسترد کردیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 248 بطور وزیراعظم فرائض کی ادائیگی پر استثنیٰ سے متعلق ہے، پٹیشنر کا سائفر سے متعلق سیاسی اجتماع سے خطاب بطور وزیراعظم ادا کی جانے والی ذمہ داریوں میں نہیں آتا۔ عمران خان کی ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواست مسترد ہونے کا 20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا، تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو بھجوایا، عمران خان نے بطور وزیراعظم سائفر کو وصول کیا اور بظاہر گم کر دیا، پراسیکیوشن کے مطابق عمران خان نے سائفر کے مندرجات کو ٹوئسٹ کرکے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
دفتر خارجہ کے سابقہ اور موجودہ افسران بالخصوص سائفر بھیجنے والے اسد مجید کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، دفتر خارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی سازش شامل نہیں، بادی النظر میں مقدمہ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن فائیو کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تحریری فیصلے میں مزید لکھا کہ وکیل کے مطابق عمران خان پابند تھے کہ وہ حکومت گرانے کی غیر ملکی سازش سے عوام کو آگاہ کرتے، وکیل کی حکومت گرانے کی سازش سے عوام کو آگاہ کرنے کی دلیل میں کوئی وزن نہیں، عمران خان بطور وزیراعظم فرائض سرانجام دینے کی بجائے سیاسی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے، سائفر کیس میں ایک شریک ملزم ہیں، صرف ایک شریک ملزم کی حد تک ایف آئی آر کالعدم نہیں ہوسکتی، شریک ملزم کی وجہ سے اخراج مقدمہ کا حکم نہیں دیا جاسکتا، پراسیکیوشن کے مطابق سائفر عمران خان کےقبضے میں ہے، بلا شک و شبہ ان کیخلاف تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں،سنگین نوعیت کے الزامات پر ضمانت نہیں بنتی،بادی النظر میں ملزم کا کیس سے تعلق بنتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں