اسلام آباد(آئی این پی)اسلام آباد ہائیکورٹ سائفر کیس سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ (آج) جمعہ کو سنائے گی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق (آج) فیصلہ سنائیں گے۔اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس میں اخراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی، ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر 9 مارچ کو وزیراعظم آفس کو موصول ہوا، فوری قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔
پراسیکیوٹر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے مزید کہا کہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے سائفر کا استعمال کیا گیا، ہم گواہوں کے ذریعے بتائیں گے کہ کیسے سائفر کو پبلک کرنے کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوئے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی خود وضاحت کرچکے ہیں کہ جلسہ میں لہرایا گیا کاغذ سائفر نہیں تھا، چیئرمین پی ٹی آئی نے علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا جسے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سائفر تھا، یہ بتائیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کہاں دکھایا، یا جو کاغذ لہرایا وہ سائفر تھا، یہ غلامی نہیں چلے گی، ایک وزیراعظم کو یہی کرنا چاہئے تھا جو چیئرمین پی ٹی آئی نے کیا۔سلمان صفدر نے کہا کہ ایف آئی اے وکیل کے دلائل کے دوران تیس منٹ ایسا لگا کہ جیسے ہم دہلی ہائیکورٹ میں کھڑے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کسی کو دشمن ریاست کہہ دینا ہمارا ڈومین نہیں ہے، سائفر کیا ہے؟ گواہ کیا ہے؟ سلمان صفدر نے کہا کچھ بھی عدالت کے سامنے ہے نہ ہی وکیل صفائی کے۔سلمان صفدر نے مزید کہا ہماری سبمیشن ہے کہ درخواست گزار سے کچھ برآمدگی نہیں کی گئی، کیسے سائفر سکیورٹی میتھڈ پر سمجھوتہ ہوا یہ نہیں بتایا گیا، یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کس دشمن ملک کو اس عمل سے فائدہ ہوا، جب کوئی بات نہیں بنی تو سائفر کو نکال کر لے آئے۔سلمان صفدر نے کہا ملک میں آج سے پہلے کبھی بھی سائفر کا معاملہ پراسیکیوٹ نہیں ہوا، وزارت داخلہ کا پہلے ہی ممنوعہ فنڈنگ کا کیس کولیپس ہوچکا ہے، جب ممنوعہ فنڈنگ کیس سے کچھ نہیں نکلا تو سائفر پر آگئے۔عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل کرنے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں اخراج مقدمہ کی درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں