اسلام آباد( پی این آئی) اعظم خان کے بعد امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید بھی عمران خان کے خلاف گواہ بن گئے۔
اسد مجید نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میرے سائفر میں دھمکی اور سازش کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں تھا، سازش اور دھمکی جسیے معنی یہاں کی سیاسی قیادت نے خود سے اخذ کیے۔ اسد مجید نے 161 کا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ چیرمین تحریک انصاف کے سائفر معاملے نے پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ میں نے اپنی مسٹر ڈونلڈ لو کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال سائفر کے زریعے معمول کے مطابق رپورٹ کیا، یہ ایک سادہ اور معمول کی خط و کتابت تھی۔ انکا کہنا تھا کہ میں پاکستان کی فارن سروس سے گریڈ 22 کا افسر تھا اور میں نے دسمبر 2022 سے اپنی ریٹائرمنٹ تک وزارت خارجہ امور پاکستان، اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس پوسٹنگ سے پہلے میں جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھا۔ میں نے 07.03.2022 کو امریکی محکمہ خارجہ کے تحت اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور مسٹر ڈونلڈ لو کو مدعو کیا تھا۔یہ ایک پہلے سے طے شدہ لنچ تھا جس کی میزبانی میں نے واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں امریکی ٹیم کے لیے پاکستان سے نمٹنے کے لیے کی تھی۔
جو تقریباً12 بج کر 30 منٹ پر طے تھی یہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس لنچ کے مدعوشرکاء اسسٹنٹ سکریٹری آف سٹیٹ مسٹر ڈونلڈ لو کے ہمراہ ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری آف سٹیٹ لیسلی ویگوری تھے۔ اسد مجید کے بیان کےمطابق ہماری طرف سے، یہ میں خود تھا، ڈیفنس اتاشی بریگیڈیئر۔ نعمان اعوان، ڈپٹی چیف آف مشن نوید بخاری اور کونسلر پولیٹیکل قاسم محی الدین موجود تھے، دونوں فریقوں کو اس بات کا علم تھا کہ بات چیت کو منٹو کیا جا رہا ہے۔ سابق سفیرکے بیان کے مطابق میں نے دوپہر کے کھانے کے دوران ہونے والی مذکورہ گفتگو کو درست طریقے سے اسلام آباد کو اس سائفر ٹیلی گرام میں رپورٹ کیا۔ سائفر بھیجنا بیرون ملک سفارتی مشنوں کا معمول ہے۔ خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں “خطرہ” یا “سازش” کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی سازش کے وجود کے بارے میں کوئی تجویز پیش کی تھی۔ یہ اسلام آباد میں قیادت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سائفر کیس میں مرکزی گواہ اعظم خان کا تحریری بیان بھی سامنے آیا ہے۔
سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے تحریری بیان میں بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے فوج کے خلاف ٹارگٹڈ پلان کیا، انھوں نے سیاسی مقاصد اور تحریک عدم اعتماد میں بچنے کیلیے پلان بنایا۔ اعظم خان نے بتایا کہ سائفر سے متعلق قومی اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ انہی کی ہدایت پر دی تھی، سائفر جس چینل سے آتا ہے اسی چینل سے واپس بھیجا جاتا ہے۔ ’8 مارچ کو سائفر سے متعلق فارن سیکرٹری کا ٹیلی فون آیا۔ ٹیلیفون پر اس کی کاپی وزیر اعظم آفس کو بھجوانے سے متعلق بتایا گیا۔ فارن سیکریٹری نے کہا کہ 9 مارچ کو اس کی کاپی وزیر اعظم کے حوالے کریں۔‘ مرکزی گواہ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے 9 مارچ کو سائفر پر رائے دی، وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی اس معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی کو پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں