لاہور (پی این آئی) رہنما پی ٹی آئی علی محمد خان نے 9 مئی بھلا کر عمران خان کو ایک اور موقع دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ماں سزا کے ساتھ درگزر اور نصیحت بھی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جو ہمارا ادارہ ہے، پاک آرمی ہے، ائر فورس ہے، نیوی ہے اس کے ساتھ پیرا ملٹری ہے، رینجرز ہے یہ سارا کچھ وہ ہے جو ہم اون کرتے ہیں، کچھ لوگ اس میں سرو کرتے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں ہم سب ان کے امین ہیں ان کو اون کرتے ہیں بلکہ بہت سی جگہوں پر جرنلسٹس اور سیاستدونوں کو ان کا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے کہ ہر چیز کا جواب ان کو نہ دینا پڑے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو سازش کے تحت ہٹانے کے الزامات پر علی محمد خان نے کہا کہ عمران خان ’شخصیات کو نہیں عہدے کو دیکھتے ہیں، عہدہ ہمارے لیے قابل احترام ہے، بہت سے لوگ آتے ہیں بہت سے چلے جاتے ہیں، منظم طریقے سے ایسا کچھ نہیں تھا اگر ایسا کچھ ہوتا تو ہمیں ادراک ہوجاتا‘۔ فرخ حبیب کے الزامات پر انہوں نے کہا کہ یہ تو وقت ظاہر کرے گا کہ ان پر کتنا دباؤ تھا، جو چیزیں انہوں نے بیان کیں ان میں سے کچھ 9 مئی سے پہلے کی بھی تھیں تو سوال یہ اٹھتا ہے اس وقت اور اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے۔ ذہن سازی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ’ذہن سازی کی ہے بالکل کی ہے، پاکستان زندہ باد پر کی ہے، مٹی سے محبت کی ذہن سازی کی، پاک فوج زندہ باد کی ذہن سازی کی، حرمت رسول ﷺ کی ذہن سازی کی ہے، ختم نبوت ﷺ کی ذۃن سازی کی ہے، انہوں نے اکاؤنٹیبلیٹی کی ذہن سازی کی ہے، میریٹوکریسی کی ذہن سازی کی ہے۔
حقیقی آزادی کی ذہن سازی کی ہے‘۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سائفر کو ’پبلک کبھی بھی نہیں کیا بلکہ ہم کیبنٹ ممبرز بھی اس کو نہیں پڑھ سکے‘، اس کی سمری ڈی کلاسیفائی ہوئی تھی، خان صاحب نے اتنی احتیاط رکھی کہ اس ملک کا نام بھی شروع میں نہیں لیتے تھے، مقصد صرف یہ تھا کہ بات سامنے آئے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔ علی محمد خان نے بتایا کہ احتجاج والے دن ہمارے گاؤں میں کوئی بزرگ فوت ہوگئے تھے تو مجھے وہاں جانا پڑ گیا تھا، وہاں پر خاں صاحب کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو میں اسلام آباد آگیا، مجھے آںے میں پورا دن لگا کیونکہ سارے روڈ چوک تھے، اس وجہ سے اس دن میں احتجاج میں نہیں تھا، اس کے ایک دن چھوڑ کر میں قانونی ٹیم کی ساتھ سپریم کورٹ جارہا تھا ، خان صاحب کی پیشی تھی تو راستے میں گرفتاری ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے احتجاج میں حصہ لیا، پرامن احتجاج کیا وہ ان کا حق ہے، لیکن جنہوں نے حدود پار کی ہیں تو میں بارہا کہہ چکا ہوں وہ پارٹی کی پالیسی نہیں تھی، نہ میرے سامنے کسی بھی میٹنگ میں خان صاحب نے پرتشدد ہونے کی بات کی، اب اگر کسی نے غلط کیا ہے تو ظاہر ہے انہوں نے چارجز کا سامنا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غلطی کرنے والے بھی پاکستانی ہیں، ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ماں سزا کے ساتھ درگزر اور نصیحت بھی کرتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں