عمران خان نے جیل کو اپنا دوسرا گھر ثابت کر دیا، رانا ثنا اللہ کا کونسا دعویٰ غلط ثابت ہوا؟

اسلام آباد ، لاہور (پی این آئی) عمران خان کے ساتھ اب صرف خود عمران خان کھڑے ہیں ، باقی سارے جانثار ایک ایک کرکے علیحدگی کا اعلان کرتے جا رہے ہیں ۔

 

 

خود عمران خان کے بارے میں سمجھا جاتا تھا یا پھر ان کے مخالفین نے افواہ سازی کا بازار گرم کیا ہوا تھا کہ وہ ایک دن بھی جیل میں نہیں گزار سکیں گے لیکن انہوں نے جیل کو اپنا دوسرا گھر ثابت کردیا ہے اور ایک مرتبہ بھی عوامی سطح پر یہ تاثر نہیں ابھرا ہے کہ وہ جیل کی دیواریں توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کرتے پکڑے گئے ہیں۔ رانا ثناءاللہ یہ بھی کہتے تھے کہ انہیں جیل میں وہ کچھ میسر نہ ہوگا جس کے بغیر ان کے ہوش ٹھکانے نہیں آتے لیکن ایک دن بھی ایسی آواز نہیں آئی ہے کہ عمران خان گڑگڑا کر کچھ مانگتے پائے گئے۔ بلکہ اگر کوئی آواز آئی ہے تو یہ کہ عمران خان کھانے میں دیسی مرغ اور دیسی بکرا پسند کرتے ہیں جس کے لئے پیسے علیحدہ سے جیل میں جمع کروائے جاتے ہیں تاکہ ان کی پسند کی خوراک انہیں دی جا سکے۔ گویا کہ ان کے بارے میں کیا گیا بہت سا پراپیگنڈہ غلط ثابت ہوا ہے اور اگر انہوں نے ایک دو سال سلاخوں کے پیچھے گزار لئے تو واقعی میں ایک لیڈر بن کر نمودار ہوسکتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوگا۔

 

 

لیکن عمران خان کے جانثاروں اور ان کے وزیر اعظم بننے سے فائدے سمیٹنے والے کیونکر دونوں پاؤں پر کھڑے نہیں رہ پائے ہیں، ان کی ٹانگیں کیوں لڑکھڑا گئی ہیں ، انہیں ایسا کیا دکھایا جاتا ہے جس کے بعد وہ سیاست سے توبہ تائب کرتے نظر آتے ہیں ۔ عمران ریاض ایسے ٹکر کے لوگ بھی ایسے دھوئے گئے ہیں کہ اب ان سے بولنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ تاہم حیف ہے معاشرے پر وہ اس پر کوئی آواز اٹھانے کی جرائت نہیں کر رہا ۔ معاشرے کو تو چھوڑیئے خود پی ٹی آئی کے بہی خواہ کونوں کھدروں میں تو باتیں کرتے ہیں لیکن کھلے بندوں خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ جو ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر عمران خان کی طرفداری کرتے پائے جاتے ہیں وہ بھی لندن سے بیٹھ کر ایسا کر پار ہے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایک ایسی صورت حال میں ہو رہا ہے جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ابھی پاکستان تحریک انصاف کی رجسٹریشن منسوخ نہیں کی ہے اور آئین میں موجود جلسے جلوس کے حق کو ابھی سلب نہیں کیا گیا ہے۔ اگر یہ کام ہو چکے ہوتے تو ممکن ہے کہ کوئی عمران خان کا نا م لیوا نہ ہوتا۔

 

 

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے سوشل میڈیا پر تو عمران خان کی فالوئنگ بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن زمین پر ان کے ووٹر وں سپورٹروںمیں بس اتنا ہی اضافہ ہوا کہ جہاں وہ خود کھڑے ہو جائیں وہاں سے جیت جائیں لیکن جہاں ان کے نام پر کوئی کھڑا ہو ، ہا ر جائے ، خواہ وہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی ہی کیوں نہ ہوں ۔ پی ٹی آئی کے سہولت کاروں نے عوامی مقبولیت کا پیمانہ زمین کی بجائے سوشل میڈیا سمجھ کر زور لگایا اور عمران خان کی جاذب نظر شخصیت کو ہاتھ میں تھامے موبائل سے لے کر ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر تو بنا سنوار کر پیش کیا لیکن عمران خان کا پاکستان کے عام آدمی سے رشتہ ناطہ نہ بن سکا جس کے تن پر کپڑے بھی میلے کچیلے ہیں اور جو خدیجہ شاہ کی طرح ٹر ٹر انگریزی بھی نہیں بولتے ۔ چونکہ عمران خان اور اس کے حواری عام پاکستانیوں جیسے نہ تھے اس لئے جو مشکل وقت آیا تو حواری تو ویسے توبہ تائب کر گئے اور عوام لا تعلق رہے ، نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کوئی ایک بھی ڈھنگ کااحتجاج نہیں ہوا ہے۔

 

 

دوسری بڑی وجہ خود عمران ہیں جن کے قول و فعل میں کھلا تضاد پکڑا گیا ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف باتیں کرتے تھے ، دوسروں کی چوری چکاریوں کا اشتہار بن کر کھڑے ہو جاتے تھے اور خود توشہ خانہ سے چوری کرتے پکڑے گئے۔ ہماری بڑی بہن جو کہ شوکت خانم سے کینسر کا علاج بھی کر واچکی ہیں اور عمران خان کی ووٹر سپورٹر بھی ہیں کو اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے تحفے لئے۔ ان سمیت پاکستانی خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو 9مئی ہو جو کچھ ہوا اس کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن توشہ خانہ کی چوری انہیں ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ اسی طرح عمران کے حامی حلقوں میں یہ تاثر بھی گہرا ہے کہ جب عمران خان کو موقع ملا تو وہ فوج کی انگلی پکڑ کر چلنا شروع ہوگئے تھے اور آج جب فوج نے اسے کندھے سے اتارا ہے تو وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل غلط ہے کیونکہ انہیں علم ہے کہ آئندہ بھی عمران خان کی اپنی شخصیت میں سیاسی طور پر اتنا دم خم نہیں ہے کہ بغیر کسی سپورٹ کے عوام کا ووٹ لے کر اقتدار میں آجائے ۔

 

 

تیسری بڑی وجہ نواز شریف ہیں جو آج تک عمران خان کو اپنا سیاسی حریف ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ کل ملا کر ان کی زبان سے تین سے چار مرتبہ عمران خان کا نام ادا ہواہوگا۔جس طرح وہ علامہ طاہرالقادری کو کبھی خاطر میں نہیں لائے اسی طرح وہ عمران خان کو بھی پکارنے کے لئے کھلاڑی کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح فوج بھی ان کانام لے کر ان کی اہمیت کو دوچند نہیں کرتی پائی جاتی ۔ البتہ قانون ضرور ان کے نام سے ان کے خلاف کاروائیاں شروع کر چکا ہے جو آئندہ دنوں میں اپنے منطقی انجام کو پہنچتی نظر آئیں گی اور عمران خان کو اپنے کہے اور کئے کی سزا ملے گی ، اس لئے اب کوئی معجزہ ہی ہے کہ عمران خان اگلے عام انتخابات کے لئے اہل قرار پائیں اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ اب صرف عمران خان کھڑا ہے اور ان کے جانثار ایک ایک کرکے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں