مسلم لیگ (ن)کا مولانا فضل الرحمٰن کے موقف کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ

اسلام آباد (پی این آئی) مسلم لیگ ن کی قیادت نے عام انتخابات تاخیر کے مولانا فضل الرحمان کے موقف کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی تاخیر کی بھرپور مخالفت کریں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لیگی پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی عام انتخابات تاخیر سے کرانے کی تجویز پر ن لیگ نے مولانا کے موقف کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ن لیگ نے الیکشن جنوری میں کرانے کے شیڈول کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی تاخیر کی بھرپور مخالفت کریں گے۔ن لیگ کی مرکزی قیادت نے پارٹی کو مقررہ وقت پر ہی انتخابات کے مطالبے پر ڈٹ جانے اور مولانا فضل الرحمان کے انتخابات میں تاخیر کے مطالبے سے فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

 

پارٹی ذرائع کے مطابق لیگی قیادت نے کہا کہ ہر پلیٹ فارم پر انتخابات میں تاخیر کی تجویز کی مخالفت کی جائے، نواز شریف وطن واپسی پر انتخابات میں تاخیر کی تجویز کی مخالفت کریں گے، نواز شریف انتخابات آئندہ سال جنوری یا فروری میں کرانے کے حامی ہیں، اور ن لیگ عام انتخابات جنوری یا فروری 2024 سے آگے لے جانے کی مخالفت کرے گی۔

 

جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے بھی سابقہ اتحادی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے سوالات پوچھے ہیں کہ بتائیں کس کی فرمائش پر جنوری میں انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی فرمائش ہے انتخابات ضروری نہیں ہیں جبکہ آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی کابینہ اجلاس میں بھی عام انتخابات 90 روز میں کرانے کی بات کی تھی،بتائیں مولانا فضل الرحمان کس کی فرمائش پر جنوری میں انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے سوال پوچھا کہ مولانا فضل الرحمان قوم کو سچ سچ بتائیں کس قیمت پر ایل ایف او کو آئین سے نتھی کیا تھا۔ جے یو آئی سربراہ بتائیں کہ انہوں نے کس کے اشارے پر لانگ مارچ کیا اور کس کے اشارے پر ختم کیا تھا۔ پی پی ترجمان نے کہا کہ بلاول بھٹو نے لانگ مارچ کرکے کٹھ پتلی کو اقتدار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری سوچ رکھنے والے انتخابات سے بھاگنے کیلئے بہانے تلاش نہیں کرتے،اگر محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا تو 8جنوری 2008 کو انتخابات ہو جاتے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں