لاہور (پی این آئی) نواز شریف نے چند دن پہلے عوامی اُمنگوں کےمطابق جو بیانیہ اپنایا، آج شہباز شریف نے باقاعدہ طور پر اُسکا مکو ٹھپ دیا۔
نواز شریف 21اکتوبر کو وطن واپسی کا ارادہ باندھ چُکے ہیں ، بظاہر اگلے منتخب وزیراعظم بننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں ،عمران خان کی سیاست پر بھی ’کاٹا‘ لگ چُکا۔سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کااپنے بلاگ بعنوان ’’ہائے تنہائی نہ پوچھ!‘‘ میں کھل کر بول پڑے ۔اپنے بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ آج مملکت سیاسی افراتفری، انتشاراور تباہی کے دہانے پر ، جہاں بنیادی وجہ 70 سال سے اسٹیبلشمنٹ کی مملکت پر یلغار وہاں سیاستدانوں کی باہمی افراط و تفریط و چپقلش، خود غرضی ہراول دستہ بنی۔ نواز شریف 21اکتوبر کو وطن واپسی کا ارادہ باندھ چُکے ہیں ۔ بظاہر اگلے منتخب وزیراعظم بننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں ۔ پچھلی دفعہ جب بے توقیری کیساتھ اقتدار سے علیٰحدہ ہوئے تو’’ووٹ کو عزت دو‘‘، اگرچہ ملفوف مگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اُنکی عوامی مقبولیت کو ساتویں آسمان تک پہنچا گیا ۔’’ ووٹ کو عزت دو‘‘کیلئے 13 جولائی کو بیٹی کیساتھ جیل جا کر خاطر خواہ قربانی بھی دی ۔
4 دن بعد 17 جولائی کو شہباز شریف نے ’’ـ خدمت کو ووٹ دو‘‘جیسا اچھوتا مزاحیہ بیانیہ متعارف کروا دیا کہ چشم تصور میں خوشحالی نے ووٹ دلوانے تھے، نامراد ٹھہرے۔ 20 اکتوبر 2020کو نواز شریف نے جب گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کیاتو بغیر لفظ چبائے فرمایا ،’’عمران خان سے میرا جھگڑا نہیں ، وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا فقط ایک مہرہِ ناچیز ہے ۔ میرا مقدمہ جنرل باجوہ ،جنرل فیض آپ کیخلاف کہ آپ دونوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹا کر مملکت کو سیاسی عدم استحکام میں دھکیلا‘‘۔نواز شریف کی تقریر نے اپوزیشن تحریک کو پہلے ہی دن تتربتر کر دیا ۔اپنے بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نے مزیدلکھا کہ نواز شریف نے چند دن پہلے عوامی اُمنگوں کےمطابق جو بیانیہ اپنایا، آج شہباز شریف نے باقاعدہ طور پر اُسکا مکو ٹھپ دیا ۔’’ نواز شریف انتقام لینے نہیں ، زخموں پر مرہم پٹی رکھنے آ رہے ہیں ۔ وہ21 اکتوبر کو اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑیں گے‘‘ ۔ کیا نواز شریف کی واپسی کا سفرشہباز شریف کی حالیہ شعلہ بیانی کیساتھ مشروط ہے؟ کیا نواز شریف کیلئے وزیراعظم بننا اتنا ہی اہم اور ضروری ہے کہ بیانیہ کی قربانی دے ڈالی؟ یہ بات طے سمجھیں کہ) اگر( 2024 کے اوائل میں الیکشن ہو بھی گئے تو اگلے وزیراعظم نواز شریف ہی ہونگے کہ چارہ گر کے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف کا سب سے بڑا سیاسی مخالف عمران خان ہی ہے ۔ مضحکہ خیز اتناکہ اگلے الیکشن میں عمران خان کا وجود دور دور تک لاموجود رہنا ہے۔ ماضی دہرانے کو، عمران خان کی سیاست پر بھی ’کاٹا‘ لگ چُکا۔ کیا نواز شریف کی تقاریر ایک تصوراتی اپوزیشن یا سایہ کا پیچھا کریں گی؟ تحریک انصاف پارٹی کی صورتحال !آج کی تاریخ میں’’قائدین اور نمایاں لوگوں کیلئےمحفوظ راستہ ایک ہی ، پارٹی چھوڑو ،معافی مانگو سیاست کو خیر باد کہو اور باقی زندگی اللہ کی یاد میں وقف کر دو ۔ تحریک انصاف کیساتھ کچھ بھی انہونی نہیں ہو رہی ۔ وطنی سیاسی تاریخ میں کئی دفعہ انقلابیوں کا ایسے مرحلوں سے پالا پڑا ہے ۔ عمران ریاض کی زندگی دن دیہاڑے ایک چلتا پھرتا سبق ہے ، ازبر رکھنا ہوگا۔حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ2024 کا ممکنہ الیکشن پہلا الیکشن نہیں ہوگا جہاں مقبول سیاسی جماعت اور مقبول لیڈر کو بزور بازو الیکشن سے باہر یا شکست سے دوچارکیا جائے گا ۔9 مئی کے واقعہ نے اسٹیبلشمنٹ کو ’’ ناقابلِ بیاں ‘‘ طاقتور بنا ڈالا ہے ۔ نواز شریف کی سیاسی مقبولیت کا راز اُنکا بیانیہ ہی تو تھا ۔ 2019 میں توسیعِ مدت ملازمت ہو یا اپریل 2022میں شہباز حکومت کا قیام ، نوازشریف کو بخوبی علم کہ اُنکی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔
سخت مقبول بیانیہ کی سیاست کا بوجھ ہماری قومی پارٹیاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔دو رائے نہیں کہ عمران خان کو بھی جب کوئی مفاہمتی فارمولادیا گیا جس میں اُنکے اقتدار میں آنے کے امکانات ہوئے تو آئین کو تہہ بالا کرتے ہوئے بھی اقتدار پکڑ لیں گے ۔ اپنے بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ اگر تحریک انصاف کو زور زبردستی فارغ کر کے سیٹوں کی بذریعہ بندر بانٹ سےآپکو حکومت مل بھی گئی تو کیاایسے غیر سیاسی ماحول میں خوشحالی یااستحکام لا پائیں گے ؟ کیا آپ مشروط وزیراعظم بن کر مقبول سیاست سے ہمیشہ کیلئے باعزت بَری ہونے پر تیار ہیں؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں