اسلا م آباد (آئی این پی )پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ عثمان ڈار نے بڑے سنگین الزامات اپنے قائد پر لگائے ہیں، جس طرح عثمان ڈار نے اعتماد سے ٹی وی پر آکر بات کی، میرا نہیں خیال کے کسی دبائو میں آکر کی ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ عثمان ڈار نے کسی سٹیج پر گرفتاری کی بات نہیں کی ۔
انہوںنے کہا کہ 2001 یا 2002 میں عثمان ڈار صاحب اپنے والد کے ساتھ میرے گھر آئے تھے، یہ کوئی چوبیس پچیس سال پرانی بات ہے، یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا، فرخ حفیظ صاحب جو میرے اور ان کے مشترکہ واقف ہیں وہ ان کو لے کر آئے تھے، ان کے والد نے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوا، میں نے ان کو آفر بھی کی لیکن یہ کہتے رہے کہ شہر سے لڑائو، انہوں نے اس حلقے سے ٹکٹ اپلائی کیا تھا جہاں پر ان کی فیکٹری ہے، اس وقت اس حلقے کا نمبر تھا 104، انہوں نے ایم این اے کیلئے اپلائی کیا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل جب میں قید ہوا تو ڈار صاحب نے ہی میرے خلاف درخواست دائر کی تھی کہ منی لانڈرنگ کرتا ہے، اس کے پاس اقامہ ہے، اس طرح کے 18، 19 الزامات تھے، نیب اور سپریم کورٹ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیا، ان کے والد صاحب نے اس وقت بھی درخواستیں نیب میں دیں، وہ لیاقت کریم نامی شخص کو درخواست دیتے تھے اور وہ جاکر نیب میں جمع کراتے تھے، اس وقت بھی میں چھ مہینے قید رہا، اس وقت درخواست ان کے والد صاحب نے دی اس بار عثمان ڈارصاحب نے دی۔خواجہ آصف کے مطابق جب یہ ٹکٹ لینے آئے تو مجھے اٹھا کر کچن میں لے گئے اور اپنے والد کے متعلق کہا کہ انہوں نے غلط کیا، آپ مجھ پر ہاتھ رکھیں، مجھے بیٹا بنائیں، میں سیاست میں آپ کا بازو بنوں گا، اس طرح کی دوچار اور باتیں کیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنسٹس میں شہباز شریف کے پاس مجھے پیش کرایا، شہباز شریف نے کہا کہ ان کے ساتھ کچھ کرلو، میں نے کہا آفر کی ہے لیکن شہر سے نہیں کرسکتا، شیخ اعجاز قائد ہیں انہوں نے مجھے کہا ہوا ہے کہ میرے امیدوار کو تم نے ٹکٹ دلوانا ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف سعودی عرب میں تھے، یہ سعودی عرب بھی گئے، ن لیگ میں شمولیت کیلئے یہ بڑے متحرک رہے۔ اس کے بعد یہ جنرل مشرف کے پاس چلے گئے، پھر ق لیگ میں چلے گئے، اس کے بعد تحریک انصاف میں آگئے۔انہوں نے کہا کہ یہ میرے عزیز ہیں، رشتہ داری ہے، محلہ داری ہے، ان کا اور میرا گھر پیدل دو تین منٹ کے فاصلے پر ہے، ان کی والدہ کے گھر کی میرے گھر سے آدھے منٹ کی واک بھی نہیں ہے۔عثمان ڈار کی والدہ کی جانب سے جاری بیان کے حوالے سے انہوںنے کہا کہ مائیں ساری محترم ہوتی ہیں، میں ان کا احترام کرتا ہوں، بڑی بہن کی جگہ ہیں، میں اس کا قطعی طور پر کوئی جواب نہیں دینا چاہتا۔انہوں نے کہا کہ عثمان ڈار نے بڑے سنگین الزامات اپنے قائد پر لگائے ہیں، نو مئی واقعہ کا جن واشگاف الفاظ میں ڈار صاحب نے ذکر کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے اقتدار کیلئے اور اقتدار میں واپس آنے کیلئے وہ جرائم کئے جو کسی سیاستدان یا دیگر نے سوچا تک بھی نہیں تھا کہ ہم فوج کے اندر بغاوت کرانے کی کوشش کریں گے، آرمی چیف کو ہٹوانے کی باتیں انہوں نے کیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی تشویشناک باتیں ہیں جو انہوں نے کی ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ، پرویز خٹک، فیاض الحسن چوہان، علی زیدی، عمران اسماعیل اس طرح کے بیانات دے چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تمام تر جو اقدامات کئے ہیں ان میں کسی نہ کسی سٹیج پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہمدردی ان کے ساتھ رہی ہے۔ حمزہ کی جو ریموول تھی، چوہدری پرویز الٰہی کا راتوں رات پلٹ جانا، یہ ساری باتیں کسی نہ کسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ نارمل نہیں تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت میرا خیال ہے اسٹیبلشمنٹ ہر طرف سے کھیل رہی تھی۔لیگی رہنما نے کہا کہ آئین کی نئی تشریح ہوئی اور اس کے نتیجے میں حمزہ کو جانا پڑا، اس کے پیچھے پوری پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح جو حکومت آئی ہوئی ہے وہ مکمل طور پر منحصر رہے اور اس کی باگ ڈور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہے، یہ سارا جال اور ساری کہانی اکتوبر 2022 میں بننی شروع ہوئی تھی، جب ڈی جی آئی ایس آئی کی اپوائنٹمنٹ پر جھگڑا شروع ہوا تھا، ٹارگٹ سب کا نومبر 2022 تھا جس میں نئے آرمی چیف کی اپوائنمنٹ تھی، اکتوبر 2021 میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا جب ان کے آپس میں اختلافات شروع ہوگئے، کوئی اصولی اختلافات نہیں تھے صرف یہی تھے کہ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے تھے کہ وہ اپنا بندہ اپوائنٹ کریں، اور وہ جنرل فیض کو اپوائنٹ کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو جھگڑا شروع ہوا وہ پھیلتا گیا اور عدم اعتماد کے ووٹ پر اختتام پذیر ہوا لیکن اس کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں ۔انہوںنے کہا کہ عارف علوی نے جو چیئرمین پی ٹی آئی کی جنرل باجوہ سے چار گھنٹے ملاقات کروائی اس کی کہانی بھی باہر آگئی ہے، جس میں تاحیات ایکسٹینشن کی آفر کی گئی تھی۔جنرل باجوہ مارشل لا لگانا چاہتے تھے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اس پر قطعی حتمی بات نہیں کرسکتا، لیکن یہ ہے جس طرح ڈار صاحب نے کل کہا ہے کہ جنرل عاصم کا راستہ روکنا اور ان کے خلاف کوئی محاذ تیار کرنا وہ بات درست ہے۔عثمان ڈار کی چیئرمین پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے سپورٹ حاصل ہونے والے بیان پر انہوں نے کہا کہ کوئی نہ کوئی بندے ضرور ان کے کانٹیکٹ میں ہوں گے۔ مجھے اس کا حتمی علم نہیں لیکن ان کی بات سے لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بات تھی کہ آپ یہ حالات پیدا کریں اس میں کوئی نہ کوئی ممکنات ہوسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کیلئے جو فہرست گئی تھی جنرل عاصم اس میں بلامقابلہ نمبر ون تھے، اس میں قطعی طور پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ اب سے لے کر جنوری تک چار مہینے ہیں، ان چار مہینوں میں بہت سی قیاس آرائیاں دم توڑیں گی، چیزیں صاف اور حتمی ہوجائیں گی، میاں صاحب 21 اکتوبر کو آرہے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت لوگوں کو مہنگائی کی آگ سے بچانے کا بیانیہ چلے گا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی بیانیوں سے دستبردار ہوجائیں۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہے، جس دن الیکشن کی تاریخ ہوگی وہ ووٹ کے عزت کا دن ہوگا، انتخابات 2018 کی طرح نہیں ہوں گے ،شفاف ہوں گے تو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ مکمل ہوجائے گا۔احتساب کے بیانے پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ساری چیزیں ہونی چاہئیں لیکن اپنے وقت پر، پہلے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانی ہے، پھر ترقی کا سفر دوبارہ شروع کرنا ہے، پھر جو پارلیمنٹ آئے گی فیصلہ اس کو کرنا ہے کہ احتساب کیسے ہوگا۔خوجہ آصف نے کہا کہ یہ جو لوگ ملک میں دہشتگردی کر رہے ہیں اس کے تانے بانے پی ٹی آئی سے ملتے ہیں، ہزاروں لوگ واپس لائے گئے سوات کے قصائی اور دیگر کو معافیاں دی گئیں۔ وہ لوگ ان کے ہمدرد ہیں، پی ٹی آئی کا ان پر احسان ہے، عمران خان الیکشن میں ان کو استعمال کرسکتے ہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں