اسلام آباد(پی این آئی) پاکستانی دفاتر میں بیوروکریسی سادہ ترین امور کو سرانجام دینے کے لیے کچھ ایسے پیچیدہ اور متروک قوانین اپناتی ہے جو شہریوں کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں اور یہ قوانین گاہے ہوتے بھی غیرقانونی ہیں، جن کا مقصد متعلقہ آفس کے ملازمین کی ملی بھگت سے دیہاڑی لگانے والے ٹاؤٹوں کا کام آسان کرنا ہوتا ہے۔
پاسپورٹ دفاتر بھی اسی کی ایک بدترین مثال ہیں، جنہوں نے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس (ڈی جی آئی پی)کا کام شہریوں کو پاسپورٹس جاری کرنا اور امیگریشن کے طریقہ کار کو آسان بنانا ہے لیکن وہ ان دونوں امور کو مشکل بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہیں۔آپ کے شناختی کارڈ پر گھر کا جو ایک یا دو ایڈریس دے رکھے ہیں، ان میں سے ایک ایڈریس متعلقہ پاسپورٹ آفس سنٹر کے ساتھ میچ ہونا چاہیے ورنہ آپ کا پاسپورٹ نہیں بنے گا۔ یہی ایک ایساقانون ہے جس کی وجہ سے پاسپورٹ بنوانے آئے بیشتر شہری خوار ہو جاتے ہیں۔آپ اگر ہر پہلو سے پاسپورٹ کے اہل ہیں لیکن آپ کے شناختی کارڈ پر موجود پتا پاسپورٹ آفس کے پتے سے مختلف ہے تو آپ کو کبھی پاسپورٹ نہیں ملے گا۔ ڈی جی پی آئی کی طرف سے پاسپورٹس کے اجراءکے لیے ایک آن لائن سروس بھی شروع کی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جہاں یہ سروس شہریوں کو دی جا رہی ہے مگر ان ممالک کے برعکس ہمارے یہاں یہ سروس بھی لوگوں کو آسانی دینے کی بجائے مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔
آن لائن سروس میں کسی بھی شہری کے فنگرپرنٹس لینے کا آسان طریقہ اس کے سمارٹ فون کے ذریعے ہو سکتا ہے لیکن ڈی جی آئی پی نے لازمی کر رکھا ہے کہ شہری فنگرپرنٹس کا فارم پرنٹ کرکے جمع کرائے اور اپنی بائیومیٹرک تصدیق کرائے۔گویا اس شرط کے ساتھ آن لائن سروس کا اصل مقصد ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور شہری اس سروس کو استعمال کرتے ہوئے بھی دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔فنگرپرنٹس کے حوالے سے اسی پر اکتفا نہیں ہوتا۔ درخواست دہندہ کے لیے فنگرپرنٹ فارم 600ڈی پی آئی پر سکین کرنا لازمی ہے۔ اس کے بعد ہی سسٹم آپ کو اگلے مرحلے میں لیجائے گا۔ اگر آپ کے گھر میں سکینر موجود ہے، تو بھی آپ کو ڈی جی آئی پی کے سسٹم میں موجود فنگرپرنٹس کے ساتھ اپنے فنگر پرنٹس کو میچ کرنے کے لیے قریبی پرنٹنگ شاپ پر جانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کئی ایسی رکاوٹیں ہیں جنہوں عبور کرتے کرتے پاسپورٹ بنوانے کے خواہش مند پاکستانی ہلکان ہو جاتے ہیں۔ یہ کچھ ایسے قانونی طریقہ ہائے کار (رکاوٹیں) ہیں جو جدید دنیا میں کب کے متروک ہو چکے ہیں۔ ’پروپاکستانی‘ کے مطابق خدیجہ شاہ نامی ایک وکیل کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ آفس کی پالیسی آئین کے آرٹیکلز 8( 1)اور 25کی خلاف ورزی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں