لاہور ( پی این آئی ) سینئر صحافی و تجزیہ کار نصرت جاوید نے مسلم لیگ (ن) سے ”ون اینڈ اونلی“سوال پوچھ لیا۔ اور بتا دیاکہ شہباز شریف لندن واپسی کا ٹکٹ کٹوانے کو کیوں مجبور ہوئے؟
اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو لاہور پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں بعد لندن کیوں واپس جانا پڑا؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب آپ کو مسلم لیگ (ن) کا کوئی ایک رہنما بھی دینے کے قابل نہیں۔جو سوال میں نے اٹھایا ہے وہ آج کے موضوع سے توجہ ہٹادے گا۔فی الوقت انگریزی محاورے والا ”ون اینڈ اونلی “ سوال یہ بنتا ہے کہ شہباز صاحب لندن سے لوٹتے ہی وطن عزیز میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد لندن واپسی کا ٹکٹ کٹوانے کو کیوں مجبور ہوئے۔ ذہن پر عقل کی لگام ڈال کر سوچیں تو گمان ہوتا ہے کہ شہباز شریف جب وطن لوٹے تو ہمارے ہاں کی وہ قوتیں جنہیں ”مقتدر“ پکارا جاتا ہے ملکی سیاست کے مستقبل کے بارے میں کوئی ”گیم پلان “ تیار کرچکی تھیں۔ شہباز صاحب کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ ان میں سے چند جزئیات ایسی بھی ہوسکتی ہیں جن کا براہ راست تعلق نواز شریف کی ذات یا اندازِ سیاست سے ہو۔
شاید ان کے بارے میں شہباز صاحب سے ملنے والے مضطرب ہوئے چند وضاحتوں کے طالب ہوں۔ شہباز صاحب نے خود کو مطلوبہ وضاحتوں کے قابل تصور نہ کیا اور ”کلامِ شاعر بزبانِ شاعر“کی چاہ میں لندن واپس لوٹ گئے۔ وہ ”ذرائع“ جن کی بتائی بات پر عموماََ مجھے اندھا اعتماد رہا ہے یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ شہبازصاحب کے لندن لوٹنے کے بعد لاہور کے نواح میں واقع ایک شہر میں ایک ”اہم ملاقات“ ہوئی ہے۔مبینہ ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو نے شہباز صاحب کو فی الفور لندن جانے کو مجبور کیا۔جس ملاقات کا ذکر ہوا اس کی تصدیق یا تردید میری بساط سے باہر ہے۔معاملات کو سادہ رکھنے کے لئے کم از کم میں یہ تسلیم کرنے کو دل وجان سے آمادہ ہوں کہ جس ملاقات کا دعویٰ ہورہا ہے وہ سرے سے ہوئی ہی نہیں۔اپنے کالم میں نصرت جاوید نے مزیدلکھا کہ نواز شریف کی 21اکتوبر2023ءکے دن وطن واپسی کا اعلان ہوچکا ہے۔ 4 برس کی طویل مدت کے بعد وہ یقیناً ایک کڑے وقت میں وطن لوٹیں گے۔ ان کی وطن آمد کے فوری بعد پہلا سوال تو یہ اٹھے گا کہ انہیں ایئرپورٹ اترتے ہی گرفتار کیا جائے یا نہیں۔ بہرحال وفاقی کابینہ سے ”اجازت“ کے بعد وہ لاہورہائی کورٹ سے یہ و عدہ کرتے ہوئے لندن گئے تھے کہ اپنا علاج کروانے کے بعد وہ پاکستان لوٹ کر اپنے خلاف ہوئے مقدمات کا سامنا کریں گے۔
یاد یہ بھی رکھنا ہوگا کہ انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا اور وہاں سے بعدازاں لندن۔یوں تکنیکی اعتبار سے وہ ”قید“ سے نکال کر باہر بھیجے گئے تھے اور واپسی کے بعد ان کا ”قیدی“ والا مقام بحال کرنا ہوگا۔یہ سوچنے میں تاہم کوئی حرج نہیں کہ جس عدالت سے وہ رجوع کریں وہ یہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے کہ لندن سے لوٹ کر میاں صاحب سیدھا جیل جائیں اور اس کے بعد اپنی ضمانت کے لئے درخواست دائر کریں۔اپنے کالم کے آخر میں نصرت جاوید نے لکھا کہ نواز شریف نے گزرے پیر کے دن لاہور میں اپنی جماعت کے رہنماؤں کے اکٹھ سے جو خطاب کیا ہے اس کے چند نکات ”مقتدر حلقوں“ کو پسند نہیں آئے ۔ہمارے عوام کی اکثریت نواز شریف کے مذکورہ خطاب سے بے خبر رہی کیونکہ پیر کے دن وہ سات گھنٹوں تک ٹی وی سکرینوں پر نگاہیں جمائے سپریم کورٹ کی فل کورٹ کی کارروائی دیکھ رہے تھے۔پیر کا دن گزرجانے کے بعد منگل کی صبح سے یہ خبر پھیلنا شروع ہوئی کہ اپنی جماعت کے سرکردہ رہ نماؤں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے 4 اہم افراد کے نام لئے ہیں۔ریاست کے 2طاقتور ستونوں کے ماضی میں نما ئندہ رہے ان چاروں افراد کو انہوں نے نہ صرف ان کی حکومت کے خلاف سازشوں کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت غارت ہوگئی۔
ان کا اصرار تھا کہ مبینہ طورپر اپنی من مانیوں سے وطن عزیز کو مشکلات کے بھنور میں پھینکنے والے افراد کا بھی ”احتساب“ ہو۔ان کے بارے میں ”مٹی پاؤ“ والا درگزرنہ برتا جائے۔ پیر کے دن ہوئے خطاب کے ان حصوں نے یقیناً ریاست کے چند فیصلہ ساز حلقوں کو چونکا دیا ہوگا۔ خدشات لہٰذا وضاحتوں کے طلب گار ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں