اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کا ’ گڈ پی ٹی آئی‘ سے اتحاد ہو سکتا ہے، لیکن مولانا فضل الرحمان سے شراکت داری مشکل نظر آتی ہے۔
بدھ کے روز اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ’گڈ پی ٹی آئی جس کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملے گی، اس سے اتحاد ہو سکتا ہے۔‘ ’دیکھنا یہ ہے کہ کون سی پی ٹی آئی کو اجازت ملتی ہے۔ گڈ پی ٹی آئی اگر الیکشن لڑ رہی ہے تو اس پر اگر پارٹی قیادت اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کہتی ہے کہ ہم نے اتحاد کرنا ہے تو۔۔۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ کون سی پی ٹی آئی گڈ پی ٹی آئی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’گڈ پی ٹی آئی وہ ہے جس کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔‘ ’اگر پی ٹی آئی کو اجازت ہو گی۔
پاکستان میں کئی سالوں میں ایک اور بیانیہ آیا ہے گڈ اور بیڈ کا، گڈ پی ٹی آئی کے ساتھ اگر پارٹی قیادت اور پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم مذاکرات کر سکتے ہیں تو پھر۔ انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ مذاکرات کر سکتے ہیں کہ نہیں۔‘ پی ڈی ایم اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت سے اتحاد کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا۔ بڑا مشکل ہے کہ ہمارا اتحاد جے یو آئی کے ساتھ ہو۔‘ ’ہو سکتا ہے کہ کچھ جماعتوں کے ساتھ ایڈ جسٹمنٹ ہو جائے کہیں نہ کہیں۔ مولانا فضل الرحمان سے ابھی ہمارے کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کبھی اپنے امیداوار قربان نہیں کرتی، ہم نے ماضی میں بھی اتحاد کیے ہیں، لیکن ہم نے کبھی بھی کسی کو نہیں کہا کہ اپنے امیدوار واپس لیں، پاکستان پیپلز پارٹی ہر نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کرے گی۔‘ صدر عارف علوی کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینے کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر علوی تاریخ نہیں دے سکتے۔ انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن نے ہی دینی ہے۔ ’اگر صدر نے ہی تاریخ دینی تھی تو آج تک کیوں سوئے رہے ہیں، صدر صاحب کو یہ پتہ نہیں کہ ان کے دفتر میں ہو کیا رہا ہے، فائل ادھر یا ادھرہے، دستخط ہو گئے ہیں یا نہیں ہوئے۔‘ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے بیانات میں تضاد کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زرداری اور بلاول ’ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ‘ کا کھیل نہیں کھیل رہے۔
آصف زرداری نے جو بیان دیا ہے اور بلاول نے جو بیان دیا ہے اس میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو ’لیول پلئیگ فیلڈ‘ دینے کا مطالبہ الیکشن کمیشن سے کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کی وضاحت نہیں کی کہ ایک جماعت کو ’لیول پلئینگ فیلڈ‘ میسر ہے اور دوسری جماعتوں کو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں وہ جمعے کو ہونے والے پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد بات کریں گے۔ تاہم انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں تاخیر کے متعلق توجیحات پیش کر رہا ہے۔ ’نوے دن میں انہوں نے الیکشن کروانا ہے، وہ حلقہ بندیوں کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ اس وقت آپ الیکشن میں تاخیر کر سکتے ہیں جب آپ نشستیں بڑھا رہے ہوں، آپ نشستیں نہیں بڑھا رہے۔
آپ نےنشستیں نہیں بڑھانی۔ 21 کروڑ سے 24 کروڑ آبادی ہو گئی ہے، لیکن آپ نشستیں نہیں بڑھا رہے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’یہ جو حلقہ بندی ہے جس میں انہوں نے ضلعوں کی حدود اور حلقوں میں پانچ فیصد ووٹرز کی تبدیلی کرنی ہے وہ ایک سال پہلے ان کے پاس تیار پڑا ہوا ہے۔ لیکن انہوں نے ابھی حلقہ بندیوں کا آغاز ہی نہیں کیا۔ ہم انہیں یہی کہتے ہیں کہ 90 روز کے اندر حلقہ بندیاں بھی کریں اور انتخابات کا انعقاد بھی کریں۔‘ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے۔ ’اب مسئلہ یہ ہے کہ 30 نومبر حلقہ بندیوں کی تاریخ تو آگئی ہے، لیکن انتخابات کی تاریخ پورے پاکستان میں کسی کو نہیں پتہ۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے پہلے فروری میں الیکشن ہو جائیں گے کوئی کہتا ہے جنوری میں ہو جائیں گے، لیکن تاریخ کیا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمیں تاریخ دی جائے۔ تاریخ نہیں دی جا رہی جس پر ہمیں بہت تشویش ہے کہ تاریخ کیوں نہیں دی جا رہی۔
‘ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ’ہمیں یہ خطرہ ہے کہ 30 نومبر کے بعد سپریم کورٹ اس میں تاخیر نہ کرے۔ جیسا کہ الیکشن ٹربیونلز کے مقدمات پر اسمبلی ختم ہو جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہوا۔‘ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ وہ مسلم لیگ نواز کو بھی حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’ہم نون والے دوستوں کو بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ پھر دسمبر اور جنوری کی سردی کی شاموں میں آپ ہمیں کہیں کہ ایک نیا ٹرک بنائیں اور انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے اس ٹرک کے اوپر جائیں۔‘ پیپلز پارٹی کی مقتدرہ (اسٹیبلشمنٹ) سے ممکنہ سودے بازی کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے ایشوز پر اسٹیبلشمنٹ سے بات کر سکتے ہیں لیکن سیاسی معاملات (ہمارے) اپنے ہیں۔‘ ’پاکستان کی سلامتی کے لیے ہر سیاسی مخالف کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں اور بیٹھے بھی ہیں۔ لہٰذا ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بالکل پاکستان کے جو معاملات ہیں، پاکستان کی سلامتی کے مسائل ہیں، پاکستان کے جو باقی معاملات ہیں ان پر ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔‘
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں