اسلام آباد(انٹرنیوز)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کاروباری شخصیات کیخلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا،نیب ترامیم سے عالمی قانونی مدد سے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے،جمہوریت آئین کی بنیاد ہے، عدلیہ،پارلیمنٹ کو اپنے طریقے سے چلنے دیا جائے،ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا،صدارتی معافی کی طرح نیب معافیاں دی جا رہی ہیں،منصفانہ،شفاف معاشرے کا قیام ریاست کی ذمہ داری ہے،معاشی مواقع چھیننے سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت سیاسی طاقتوروں کے لئے مختص کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دینے شروع کئے تو چیف جسٹس نے کہا خواجہ صاحب اجازت ہو تو مخدوم علی خان سے ایک بات پوچھ لوں؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم نے ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی، آپ نے کل کہا تھا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سے حاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں۔دوران سماعت نیب ترامیم سے مستفید افراد کی رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا گیارواں سال 30اگست تک 12ریفرنسز نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے ہیں۔سابق صدر آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس احتساب عدالت نے ترامیم کے بعد واپس کر دیا۔ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر کے علاوہ شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا اور انور مجید کے نیب مقدمات بھی منتقل کئے گئے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ جعلی اکاونٹس کیس کے مرکزی ملزم حسین لوائی اور اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید کا کیس بھی نیب دائرہ کار سے باہر ہو گیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال مجموعی طور پر 22مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس،25مقدمات دیگر فورمز کو منتقل کئے گئے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرائی ہے؟، نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر کے بیرون ملک سے حاصل ریکارڈ عدالت میں قابل قبول شواہد کے طور پر پیش نہیں کئے جا سکتے، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟،وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین میں صرف ملزم کے حقوق اور فیئر ٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد بین الاقوامی قانونی مدد کے ذریعے ملنے والے شواہد قابل قبول نہیں رہے، وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایف بی آر کو بیرونِ ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہو جاتی ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتی۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے، بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمے داری ہے، عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں چاہے اپنے ملک کی کیوں نہ ہوں، سوئس عدالتوں نے آصف زرداری کے خلاف اپنے ملک کے شواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوئس مقدمات تو زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہوئے تھے عدم شواہد پر نہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی کوئی نہیں جانتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں ملزم کے ساتھ شکایت کنندہ کے حقوق بھی ہیں؟۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آئین ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، شکایت کنندہ کا ذکر نہیں، کل کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50فیصد سے کم ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70فیصد سے کم ہے، ان میں سے بھی کئی مقدمات اوپر جا کر آپس میں طے ہو جاتے ہیں، ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں جو تشویش کی بات ہے، قتل کے مقدمات میں 30سے 40فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، متاثرین کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بیرونِ ملک سے باہمی قانونی تعاون کے ذریعے شواہد لیے جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیرونِ ملک سے حاصل شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے؟، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے بیرونِ ملک سے شواہد لئے جاتے ہیں اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے قانون میں بیرونِ ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟، خواجہ حارث نے جواب دیاپاکستانی قانون میں بیرونِ ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ مئی 2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پر مبنی فہرست ہے، بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے، ہمارے پاس جمعے کی وجہ سے آج ساڑھے 12 بجے تک کا وقت ہے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو ساڑھے 12بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو کچھ وقت لیں گے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پیر تک وقت نہیں، تحریری طور پر معروضات دے دیں، ہم دیکھ لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حال ہی میں سندھ سے نیب کے مقدمے میں ملزم پلی بارگین پر آمادہ ہوا ہے، نیب نے ملزم کے آمادہ ہونے پر پلی بارگین کی رقم بڑھا دی جو کہ مضحکہ خیز عمل ہے، قانون کی کون سی شق ہے جو کہتی ہے کہ انصاف کے ترازو میں توازن برقرار ہونا چاہئے؟۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کریمنل لا تو کہتا ہے کہ ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کسی کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت آئے گا۔خواجہ حارث نے کہا کہ نیب مقدمات میں پبلک آفس ہولڈرز کے احتساب کے عمل میں رکاوٹ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کو شفاف ہونا چاہیے، درخواست گزار کا کیس یہ ہے کہ نیب ترامیم سے ملزمان کو تحفظ دیا گیا ہے، نیب کے زیر حراست ملزم کو دباؤ میں لا کر پلی بارگین کرنے کا تاثر موجود ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ یہ درست ہے، کچھ مثالیں موجود ہیں جن میں دباو ڈال کر پلی بارگین کی گئی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ترامیم کے بعد پلی بارگین کے تحت اقساط میں وصول کی گئی رقم بھی واپس کرنا ہو گی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ نیب ترامیم سے پلی بارگین کے بہت سارے کیسز کو دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے؟۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 50کروڑ سے کم مالیت کی پلی بارگین اب نیب کے قانون میں شامل نہیں، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کی پلی بارگین کو بھی قانون سے خارج کر دیا گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے جو کیس ختم ہو گا وہ کسی دوسرے فورم پر چلا جائے گا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کے علاوہ کسی قانون میں پلی بارگین کی شق موجود نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک منٹ کے لئے مان لیتے ہیں کہ ارکانِ پارلیمنٹ نے خود کو فائدہ پہنچانے کے لئے ترامیم کیں، کیا ہم نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیں؟ اگر ہم کالعدم قرار بھی دیں تو کس قانون کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیں؟۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 9کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، ان ترامیم سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب آپ مانیں نیب کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے، کرپشن معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے، نیب ترامیم میں جرم کو ختم کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جواب یہ ہے کہ آئندہ پارلیمنٹ آئے گی تو نیب ترامیم پر دوبارہ غور کر لے گی، اگر پارلیمنٹرینز نے اپنے فائدے کے لئے قانون بنایا ہے تو آئندہ عوام ان کو منتخب نہیں کریں گے، انتخابات سر پر ہیں اور جمہوریت آئین کی بنیاد ہے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا، میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کے نام بھی موجود ہیں جنہیں نقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہونا چاہیے کہ کسی اکاؤٹنٹ کو بٹھا کر 10روپے کی غلطی نکالی جائے، کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، کرپشن معاشرے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم میں غلطی نکلے لیکن نہیں مل رہی، کچھ چیزوں کو فطرت پر بھی چھوڑیں، الیکشن سر پر ہیں، عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ایک چٹھی پر بھی چلا سکتے تھے لیکن بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لئے سن رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا، کیسے اپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تو ایک خط پربھی نوٹس لے سکتے ہیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ خط کس نے بھیجا ہے، پارلیمنٹ کا فورم چھوڑ کر عدالت آنے سے نیک نیتی کا سوال تو آئے گا، آپ نے پارلیمنٹ میں ہی ان باتوں پر لڑنا تھا جسے آپ چھوڑ کر چلے گئے، آپ نے نشست سے استعفیٰ دینا تھا تو اسے کسی اور کے لئے خالی کرتے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے نشست سے استعفیٰ دیا تھا جو منظور نہیں کیا گیا، اثاثوں سے متعلق شق بھی نیب کے سیکشن 9میں ہے، سیکشن 9میں اس کی تعریف کرپشن کے طور پر کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں کسی اثاثے کی مالیت کیا تھی یہ قیاس آرائی ہی ہو سکتی ہے، کوئی پراپرٹی ڈیلر ہی کہہ سکتا ہے کہ یہ جائیداد کچھ برس قبل کتنی مالیت کی تھی، نیب کچھ تو کنکریٹ شواہد لایا کرے کہ اثاثوں کی اصل مالیت سامنے نہیں آئی، صدارتی معافی کی طرح نیب سے معافیاں دی جا رہی ہیں، بد نیت لوگوں کے ہاتھ میں اتھارٹی دی جاتی رہی، کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغ دار پیسہ موجود ہے، داغ دار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے، ریاست کی ذمے داری ہے کہ منصفانہ اور شفاف معاشرہ قائم کرے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرمان آزاد نہ گھومیں، معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ بنیادی حقوق کے براہِ راست تعلق کا سوال اٹھا رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے بنیادی حقوق نیب ترامیم سے متاثر ہو رہے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کسی مقصد سے منتخب کرتے ہیں اور وہ مقصد آئین میں درج ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ نیب کو ترامیم کے ذریعے کیپچر نہیں کر لیا گیا؟ کیا جو نیب کا ملزم ہے وہ خود قانون بنائے گا؟ کیا نیب کا ملزم خود قانون بنا کر بتائے گا کہ اس کے خلاف کارروائی کیسے ریگولیٹ کی جائے؟ کیا ذاتی فائدے کے لئے بنائے گئے قانون کو کالعدم کر سکتے ہیں؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمان اگر اپنے فائدے کے لیے قانون بنا بھی لے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت سے پھر استدعا کی کہ اٹارنی جنرل دلائل دینا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پھر کیس منگل تک ملتوی کریں گے کیونکہ پیر کو کراچی والوں کا آنا مشکل ہوتا ہے، ہم نے آمدن سے زائد اثاثوں، اختیارات کے غلط استعمال اور پلی بارگین سے متعلق ترامیم کو دیکھنا ہے، دنیا بھر میں ڈائریکٹ شواہد استعمال ہوتے ہیں کہ آپ کی یہ ٹرانزیکشن غلط ہے، آڈیٹر جنرل کے ادارے کو مضبوط کیا جائے تو وہ ان معاملات کو خود دیکھ سکتا ہے، ماضی میں نیب قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا، قانون سازی کے ذریعے سرکاری افسران کو نیب سے تحفظ فراہم کیا گیا، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اہم آئینی ادارہ ہے، مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کے اکاونٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے، نیب ترامیم سے براہِ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، نیب ترامیم سے بلا واسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے، ہمیں تراش کر بنیادی حقوق کا تعلق دیکھنا ہو گا۔بعد ازاں کیس کی سماعت سماعت 5ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں