اگر ایک وزیراعظم کا تعلق پی ایم ایل این سے تھا تو وہ پی ایم ایل این کی حکومت نہیں تھی، پی ڈی ایم کی حکومت کمپرومائز کی حکومت تھی، سینیٹر عرفان صدیقی نے دلائل کا انبار لگا دیا

اسلام آباد(اے پی پی)پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اتحادی ایک خاص وقت کے لئے ملتے ہیں اور اسکے بعد جب انتخابات کا میدان سجتا ہے تو سبھی اپنے اپنے منشور اور بیانیہ کے مطابق انتخابات لڑتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2018میں ختم ہوئی اور اس کے بعد پی ایم ایل این کی حکومت آج تک نہیں آئی ، اگر ایک وزیراعظم کا تعلق پی ایم ایل این سے تھا تو وہ پی ایم ایل این کی حکومت نہیں تھی، اس میں 13جماعتیں تھیں اور سب کو پتہ ہے کہ کون کتنے بڑے عہدے پر فائز تھا اور کس طرح کی ایک کمپرومائز حکومت چل رہی تھی اور کس طرح سب سارے فیصلوں میں شریک تھے، یہ کہنا کہ پی ایم ایل این کی حکومت تھی یہ تاریخی اور حقائق کی غلطی ہے،

ہماری حکومت 2018میں ختم ہو گئی اور ہمارا بیانیہ ہے کہ ہم 2018 میں آپ کو لوڈ شیڈنگ فری پاکستان دے کرگئے، 13روپے سے 15روپے یونٹ بجلی چھوڑ کر گئے، 300 سے کم یونٹ والوں کے لئے 9روپے یونٹ بجلی تھی، 16ماہ کارکردگی دکھانے کے مہینے نہیں تھے، فائر فائٹنگ کے مہینے تھے جو الحمداللہ ہم نے کامیابی کے ساتھ مکمل کئے، مسلم لیگ(ن) کا ہمیشہ سے یہ بیانیہ رہا ہے وہ اپنے کاموں کی فہرست لے کر عوام کے پاس جاتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ موٹرویز کس نے بنائیں، یہ کارخانے کس نے لگائے، یہ سی پیک کون لے کر آیا، دہشت گردی کس نے ختم کی، یہ ایٹمی دھماکے کس نے کئے، 2018 میں آپ کو لوڈ شیڈنگ فری پاکستان کون دے کرگیا، ہمارا بیانیہ تو کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام سوال تو یہ ہے کی اینکر ماریہ میمن کے ساتھ گفتگو کے دوران پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اتحادی ایک خاص وقت کے لئے ملتے ہیں اور اسکے بعد جب انتخابات کا میدان سجھتا ہے تو سبھی اپنے اپنے منشور اور بیانیہ کے مطابق انتخابات لڑتے ہیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوتے ہیں جو انہونی بات نہیں، یہ مت سوچئے کہ کل تک کے اتحادی 13کی 13جماعتیں الیکشن میں جائیں گی تو وہی باتیں کریں گی جو الیکشن سے پہلے یا اتحاد کے دوران کر رہی تھیں، اختلاف آئیں گے، اس وقت تو وہ اس قانون سے متعلق کبھی کہیں گی کہ ہم اس کے خلاف تھے جسے انہوں نے منظور کرایا ہوگا لہٰذا ان باتوں کو میں اہمیت نہیں دیتا اورنہ کسی کو اہمیت دینی چاہئے، یہ انتخابی سیاست کا تقاضا ہے اور اس سے کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لوگ نادان نہیں ہوتے لیکن ہماری سیاست میں ایسا ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت 2018میں ختم ہو گئی تھی اور اس کے بعد پی ایم ایل این کی کوحکومت آج تک نہیں آئی، اگر ایک وزیراعظم کا تعلق پی ایم ایل این سے تھا تو وہ پی ایم ایل این کی حکومت نہیں تھی،

اس میں 13جماعتیں تھیں اور سب کو پتہ ہے کہ کون کتنے بڑے عہدے پر فائز تھے اور کس طرح کی ایک کمپرومائز حکومت چل رہی تھی اور کس طرح سب سارے فیصلوں میں شریک تھے۔ اس لئے یہ کہنا کہ پی ایم ایل این کی حکومت تھی یہ تاریخی غلطی ہے اور حقائق کی غلطی بھی ہے۔ ہماری حکومت 2018میں ختم ہو گئی اور ہمارا وہی بیانیہ ہے۔ آج بھی اگر ہم عوام کے پاس جائیں تو ہم کہیں گے کہ آپ ان کا گریبان پکڑیں جنہوں نے ایک شخص کی دشمنی میں آپ کو اس جہنم کے اندر دھکیل دیا ہے۔ نواز شریف تو 2018 میں آپ کو لوڈ شیڈنگ فری پاکستان دے کر گیا، 13روپے سے 15روپے یونٹ بجلی چھوڑ کر گیا، 300سے کم یونٹ والوں کے لئے 9روپے یونٹ بجلی تھی اور ہمارا یہ بیانیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تک عوام کو کس نے پہنچایا ہے؟ کیا ہم نے پہنچایا یا انہوں نے پہنچایا جو 4سال تک بیٹھے رہے؟ اور ایک میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کی، لائن لاسز سے دوچار کر دیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس بیانیہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ہمیشہ ایک ہی بیانیہ ہوتا ہے، وہ بلیم گیم میں نہیں پڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ ہے ہماری کارکردگی ہے، کسی اور نے اگر 13ہزار میگاواٹ بجلی بنائی ہے تو وہ بتائے چاہے وہ پیپلزپارٹی ہے یا کوئی اور جماعت ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کسی عمارت میں آگ لگی ہو تو آگ بجھانا آپکی سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے، 16ماہ تو فائر فائٹنگ ہوتی رہی، پونے 4 سال کا جو کیا دھرا تھا، ہم تو اس کے ساتھ لڑتے رہے۔ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ یہ کہاں چھوڑ کر گئے، ہم روپیہ کہاں چھوڑ کر گئے، ہم جی ڈی پی کہاں چھوڑ کر گئے، ہم گردشی قرضہ کہاں چھوڑ کر گئے، ہمارا مجموعی قرضہ جو 75سال میں نہیں لیا گیا وہ قرضہ 4 سال میں کہاں لے کر گئے، ہم تو اس سیلاب اور سونامی سے لڑتے رہے ہیں یہ کارکردگی دکھانے کے 16مہینے نہیں تھے، فائر فائٹنگ کے مہینے تھے جو الحمداللہ ہم نے کامیابی کے ساتھ مکمل کئے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ(ن) کا ہمیشہ سے یہ بیانیہ رہا ہے وہ اپنے کاموں کی فہرست لے کر عوام کے پاس جاتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ موٹروے کس نے بنائی، یہ کارخانے کس نے لگائے، یہ سی پیک کون لے کر آیا، یہ ایٹمی دھماکے کس نے کئے،

ہمارا بیانیہ تو کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال دی جارہی ہے کہ وہاں بجلی اتنی ہے وہاں بجلی اتنی ہے کوئی پوچھے کہ حسینہ واجد 15سال سے بیٹھی ہوئی ہیں انہیں تو کسی نے نہیں چھیڑا، حسینہ واجد نے 15سال میں اپنے منصوبے مکمل کئے اور بنگلہ دیش کو یہاں لاکر کھڑا کیا۔ مودی 9سال سے بیٹھا ہے اور وہ اپنے منصوبے مکمل کر رہا ہے۔ آپ ایک کارکردگی دکھانے والا، ملک کو اندھیروں سے نکالنے والا، بجلی لانے والا، دہشت گردی ختم کرنے والا، سرمایہ کاری لانے والا ایک وزیراعظم آتا ہے، آپ اسے باہر نکال کر پھینک دیتے ہیں جس کی سزا آج سب بھگت رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہمارا بیانیہ آج بھی یہی ہے الیکشن نومبر میں ہوتے ہیں یا دسمبر میں تب بھی یہی ہے، کسی اور کے دامن میں کچھ ہے تو وہ بتائے، پی ٹی آئی جذبات کے نعرے لگانے، کچھ اور چیز ہے تو کیش کرا لے لیکن کوئی ایک بھی کارہائے نمایاں میں سے ایک کام بھی اس کے پہلو، پلڑے یا بگچی میں ہے تو دکھائے۔ سی سی آئی میں سب معاہدہ کرتے ہیں کہ نئی مردم شماری ہوگی اور اس کے مطابق حلقہ بندی ہوگئی اور الیکشن ہوں گے اور باہر نکل کر آپ جو مرضی کہیں ہم نہیں کہتے کہ الیکشن 90 دن میں نہ ہوں، نہ ہی ہم نے الیکشن کرانے ہیں۔ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، ہمارا بیانیہ وہی ہے جو آج ہے یا دس دن بعد ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ 90دن میں الیکشن آئین کا تقاضا ہے اور ہم اس کو مانتے ہیں اور ماننا بھی چاہئے اور اگر کوئی نہیں بھی مانتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ آئین کہہ رہا ہے تو کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح آئین یہ بھی کہتا ہے کہ جب مردم شماری ہو جاتی ہے تواس کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بغیر آپ الیکشن نہیں کرا سکیں گے، یہ بھی آئین میں لکھا ہے کہ 1973 کے آئین کے علاوہ کوئی اور آئین نہیں ہے، نہ پی ایم ایل این نے لکھا ہے اور نہ کسی اور نے لکھا ہے،

یہ اسی آئین میں لکھا ہوا ہے جہاں 90 دن لکھے ہوئے ہیں لہٰذا اسے بھی دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال کے مطابق اگر الیکشن جنوری، دسمبر یا فروری میں جب بھی ہوتے ہیں، میاں نواز شریف کا حتمی پروگرام بن گیا ہے وہ اکتوبر کے وسط کے لگ بھگ وطن واپس آجائیں گے اور اس کے مطابق اپنی مہم چلائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف پہلے وطن واپس آئے اور جیل گئے اس وقت بھی لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ نہیں آئیں گے لیکن سب نے دیکھا وہ آئے اور اب بھی لوگ اسی طرح کہتے ہیں۔ نواز شریف مسلم لیگ ن کے قائد کی حیثیت سے واپس آ رہے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کہاں کھڑی ہوتی ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اگر مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوتی ہے اور وہ اس پوزیشن میں ہوتی ہے کہ حکومت قائم کر سکے تو میاں نوازشریف چاہیں یا نہ چاہیں جماعت کی خواہش اور مرضی ہے کہ میاں صاحب کو آگاہ بھی کیا جاچکا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ وہاں سے ہی شروع ہو جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا، 2017کے جولائی میں جس طرح نوازشریف کو نکال باہر کیا گیا تھا ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو اس مسند پر بٹھا دیں۔ اس کے بعد ان کی مرضی ہے کہ وہ کتنا عرصہ وزیراعظم رہتے ہیں ، نہیں رہتے یہ تمام انتخابی نتائج پر منحصر ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ تمام قانونی رکاوٹیں ان کے پیش نظر ہیں۔ وہ آئیں گے انہوں نے تو کبھی کسی رکاوٹ کی ہیرا پھیری نہیں کی ہر مقدمہ میرٹ پر لڑے، نہ کبھی کوئی استثنیٰ چاہا، نہ کبھی کوئی بہانہ کیا، نہ کبھی کوئی ٹرولنگ کی اور کبھی کسی جج کے خلاف اسطرح کی مہم چلائی جو آج کل چل رہی ہے، وہ آئیں گے اور جہاں جو مقدمات زیر التوا ہیں ان کا سامنا کریں گے اور جو بھی سلسلہ ہوا اسے برداشت کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ کوئی اس طرح کے عہدوں کی تقسیم نہیں ہوتی ہے جماعت الیکشن میں جائے گی، سب اپنا حصہ ڈالیں گے، شہبازشریف، مریم نواز اس مہم میں ہوں گی، نوازشریف قیادت کریں گے، باقی سب بیٹھ کر اپنے اپنے حلقوں میں سرگرم ہوں گے، نتائج کیا ہوتے ہیں۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں