صرف ایک ٹوئٹ کر دینا کافی نہیں، سینئر صحافی حامد میر نے صدر مملکت سے بڑا مطالبہ کر دیا

اسلام آباد(پی این آئی)سینئر صحافی حامد میر نے صدر عارف علوی کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ آرمی ایکٹ بل کے حوالے سے صدر علوی کی جانب سے صرف ایک ٹوئٹ کر دینا کافی نہیں ،بل پر دستخط سے انکار کے دستاویزی ثبوت کیساتھ بات کریں ۔

 

 

 

دوسری صورت میں عارف علوی کے پاس اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔نجی ٹی وی چینل آرمی ایکٹ سے متعلق بل پر جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر صدر مملکت کو کلیئر کرنے کی ضرورت ہے، اگروہ کلیئرٹی کیساتھ سامنے آئیں گے،پھر پتہ چلے گاکہ ان کا موقف درست ہے یا غلط ہے،کیونکہ ابھی ہمیں ان کے عملے کا نکتہ نظر نہیں معلوم،ابھی تو صدر عارف علوی کا نکتہ نظر معلوم ہے اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ میں دستخط نہیں کر رہا آپ بل واپس بھیج دیں،عملے نے دو دفعہ صدر علوی کو کنفرم کیا کہ بل واپس بھیج دیا ہے۔سینئر صحافی نے کہاکہ اب جو عملہ جس کو وہ نومنیٹ کرتے ہیں،یا جو ذمہ دار تھا اس کا کیا موقف ہے،اس کا موقف سامنے آنے کے بعد ہی ہم کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے۔

 

 

ایک سوال ’’کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دستخط ہوگئے ہوں،لیکن صدر علوی پارٹی یا اپنی وجہ سے آن ریکارڈ ان بلز کو اون نہیں کرنا چاہتے‘‘ اس پر حامد میر نے کہاکہ ایسا مملکن نہیں ہے،اگر صدر علوی نے دستخط کردیئے ہیں، اور دستخط کرنے کے بعد وہ انکار کررہے ہیں تواس کا فرانزک ہو گا تو پتہ چل جائے گا،لیکن ابھی صدر مملکت کا جو نقطہ نکتہ ہمیں پتہ چل ہے اور وہ وکیل جن سے وہ صلاح مشورہ کررہے ہیں،پتہ چلا ہے کہ صدر عارف علوی کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ یہ دونوں بل ہیں،ان پر میں دستخط نہیں کر رہا ان کو آپ واپس بھیج دیں اور عارف علوی کو یہ بتا یا گیا کہ ہم نے بل واپس بھیج دیا ہے۔سینئر صحافی نے کہاکہ جب میڈیا پر خبر آئی کہ صدر نے دستخط کردیئے ہیں تو صدر علوی نے عملے سے دوبارہ پوچھا تو عملے نے کہاکہ ہم نے بل واپس بھیج دیئے ہیں میڈیا پر چلنی والی خبر غلط ہے، جب صدر علوی کو پتہ چلا ہے کہ یہ قانون بن گیا ہے اور اس کی روشنی میں گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں،چیئرمین تحریک انصاف پر بھی مقدمہ درج ہو گیا ہے۔

 

 

شاہ محمود قریشی پر بھی مقدمہ درج ہو گیا اور اسد عمر پر بھی مقدمہ درج ہو گیا ہے تو اب صدر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ قانون بن گیا ہے اس پر باقاعدہ گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں،لٰہذا انہوں نے معافی تلافی شروع کردی ہے۔حامد میر نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ صدر علوی کا صرف بیان دے دینا کافی نہیں ہے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے وکیل سے صلاح مشورہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں قانونی کارروائی کرنا چاہ رہے ہیں،اپنے عملے کیخلاف عدالت میں جانا چاہتے ہیں،جب تک وہ یہ کام نہیں کریں گے ان کا بیان مشکوک ہے،ان کا کہ کہنا کہ میں معافی مانگتا ہوں یہ صدر مملکت کے شان شایان بیان نہیں ،جب تک وہ اس سلسلے میں ٹھوس دستاویزی ثبوتوں کیساتھ قانونی کارروائی نہیں کرتے۔ایک اور سوال ’’ یوان صدر کا عملہ اگر اس کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے کیا سزا بنتی ہے‘‘ کے جواب حامد میر نے کہاکہ اگر پاکستان کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں اس طرح کا ایک واقعہ پہلے ہو چکا ہے لیکن وہ صدر مملکت کے متعلق نہیں ہے۔

 

 

وہ آزادکشمیر کی حکومت کے سربراہ کی طرف سے ایک واقعہ ایسا ہے،1950میں حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہواتھااسے کہتے ہیں معاہدہ کراچی،جس کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا گیاتھا،اس پر آزادکشمیر کے صدر سردار ابراہیم خان نے دستخط نہیں کئے تھے،ان کی جگہ کسی نے دستخط کرکے اس معاہدے کو نافذ العمل کردیا،اس کے بعد سردار ابراہیم کئی سال تک خاموش رہے اور کافی سال ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ معاہدہ کراچی پر دستخط میرے نہیں ہیں اور اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ، معاہدہ کراچی ویسے کاویسے چل رہا ہے،جب سردار ابراہیم نے انکشاف کیا تو بہت سے لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کی انکوائری ہونی چاہئے،لیکن کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔صدر پاکستان کی طرف سے ایک اہم بل ہے اس بل پر دستخط نہ کرنا اور یہ کہنا ہے کہ میں نے تو کہا تھا کہ آپ یہ واپس بھجوا دیں لیکن انہوں نے دستخط کرکے بل بھجوا دیا یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔

 

 

سینئر صحافی نے کہاکہ سردار ابراہیم اور صدر علوی کے دستخط میں بہت فرق ہے ،یہ جو دستخط ہیں یہ ناصرف صدر پاکستان کے دستخط ہیں بلکہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے دستخط ہیں،اس میں خاص طور پر آرمی ایکٹ والا بل ہے وہ بہت اہم ہے صدر کی جانب سے صرف ایک ٹوئٹ کر دینا کافی نہیں ہے ،میری صدر علوی کے قریبی ذرائع سے بات ہوئی ہےان کاکہنا ہے کہ صدر اس بارے میں قانونی کارروائی پر غوروفکر کررہےہیں،ہوسکتا ہے کل کوئی قانونی کارروائی کی جائے،اگر قانونی کارروائی ہو گی اور ثبوت سامنے آئے گا، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدر پاکستان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے،دوسری صورت میں عارف علوی کے پاس اپنے منصب سے استعفیٰ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

 

 

 

حامد میر نے کہاکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے صدر علوی جن پر الزامات لگا رہے ہیں،ان میں سے کچھ کا تعلق سول سروس سے نہیں ہے،یہ بڑی نوعیت کا معاملہ ہے،آپ کو پتہ ہے کہ صدر کا جو عملہ ہوتا ہے اس میں کون کون شامل ہوتا ہے،اس میں کچھ لوگ سول سروس ہے اور کچھ دوسرے لوگ ہیں،جب تک صدر دستاویزی ثبوت کیساتھ بات نہیں کریں گے،ان کی بات پر لوگ یقین نہیں کریں گے،ایک ٹوئٹ کافی نہیں ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت موجود ہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ میں اس بل سے متفق نہیں ہوں،واپس بھیج دیا جائے،یہ الفاظ انہوں نے لکھے ہیں وہ اس کا سکرین شاٹ بنائیں اور سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں