لاہور(پی این آئی) مشیر وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کی صورت الیکشن مارچ تک چلے جائیں گے، 14دسمبر تک حلقہ بندیوں کی رپورٹ آئے گی، پھر انتخابی فہرستوں کو دیکھا جائے گا، انتخابی فہرستوں کیلئے ایک ماہ کا وقت درکار ہے، جس پر اعتراضات بھی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر آئین سپریم ہے، لیکن آئین کا آرٹیکل 51 بھی سپریم ہے، مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن مجبور ہوگیا، جب قومی اسمبلی کی تحلیل سے 3 دن قبل مردم شماری کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، پھر آئین کے آرٹیکل 51 کی شق پانچ کے تحت الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کیلئے آئینی قانونی طور پر پابند ہوگیا ہے۔حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری ہوگیا ہے تو 14دسمبر تک حلقہ بندیوں کی رپورٹ آ جائے گی اس کے بعد الیکشن فہرستوں کو دیکھا جائے گا، چند روز قبل چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات کی، ملاقات اڑھائی گھنٹے جاری رہی۔ چیف الیکشن کمشنر نے آرٹیکل 51 اور آرٹیکل 224 کا حوالہ دیا، تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ آرٹیکل 218 اور آرٹیکل 222 کا حوالہ دیا اور آرٹیکل 230 کا بھی حوالہ دیا اس کے بعد حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کیا گیا۔مشترکہ مفادات کونسل کے میٹنگ منٹس میں کہیں ایسا نہیں لکھا ہوا۔
وزیراعلیٰ سندھ اگر کہتے تو نوٹیفکیشن نہیں ہوسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین قانون کی بات کررہے ہیں، 14 دسمبر کو گزٹ نوٹیفکییشن جاری ہونے کے بعد انتخابی فہرستوں پر بھی نظرثانی ہوگی تو الیکشن مارچ تک چلے جائیں گے۔ انتخابی فہرستوں کیلئے ایک ماہ کا وقت درکار ہے، جس پر اعتراضات بھی ہوں گے۔ الیکشن مارچ میں چلے جائیں گے کیونکہ انتخابی فہرستیں بھی اپ ڈیٹ ہوں گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں