عمران خان کیخلاف انتہائی فیصلہ لینے کیلئے نگران سیٹ اپ کو کیا کرنا ہوگا؟ حفیظ اللہ نیازی کا تجزیہ

لاہور (پی این آئی )عمران خان کیخلاف انتہائی فیصلہ لینے کیلئے نگران سیٹ اَپ کو اَپ سیٹ کرنا پڑے گا۔ شاید مارشل لا ءکا سہارا ہی لینا پڑے کہ عدالتی نظام ماورائے آئین و قانون اقدامات میں وارے میں نہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی دھجیاں بکھریں گی۔سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے اہم انکشافات کر دیئے ۔

” اپنے بلاگ بعنوان “چیف صاحب، مثبت سوچ، خوشحال پاکستان” میں حفیظ اللہ نیازی نےلکھا ہے کہ کیا خوشحال پاکستان ، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن ہے؟ اگرچہ تاریخ میں ایسا کوئی سبق موجود نہیں، نامساعد حالات میں مثبت سوچ نعمت ِ غیر مترقبہ ہے ۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پہلی ترجیح پاکستان کو ساتویں آسماں پر دیکھنا ہے ۔سوال! کیا مملکت بالآخر عدم استحکام سے استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے۔کیا عمران خان ’’عوامی حمایت‘‘ کے زُعم میں زندگی کے آخری 323دن اٹک جیل پر اکتفا کرنے پر تیار ہیں؟ بھٹو بے پناہ مقبول رہنما تھے، لیکن دائیں اور بائیں بازو کی لڑائی میں مخالف سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ بھی عوام الناس میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ سرد جنگ کا زمانہ، امریکی مفادات پاکستان میں مطلق العنانی کیساتھ وابستہ، افغان جنگ میں ڈالروں کی بوچھاڑ، جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو خاطر خواہ سیاسی استحکام ملنے کی بے شُمار وجوہات تھیں۔ یقیناً پاکستان کے روشن درخشاں مستقبل کے بارے میں امدادی وعدے، وسائل کی بوچھاڑ چار سو تذکرے موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تب ہی مؤثر و میسر ہو گا اگر وطن عزیز سیاسی استحکام کا گہوارہ بنے گا۔ تاکہ سب کا سرمایہ اور امداد کار آمد و محفوظ رہے۔اپنے بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ عمران خان کو ایک مد میں بھٹو پر سبقت حاصل ہے۔ عمران خان کی سیاست اور پبلک سپورٹ اپنے محالفین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ نواب احمد خان قتل کیس مقدمہ بھی سائفر کیس سے زیادہ مضبوط تھا۔ عمران خان کیخلاف انتہائی فیصلہ لینے کیلئے نگران سیٹ اَپ کو اَپ سیٹ کرنا پڑے گا۔

شاید مارشل لا ءکا سہارا ہی لینا پڑے کہ عدالتی نظام ماورائے آئین و قانون اقدامات میں وارے میں نہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی دھجیاں بکھریں گی۔2014 ءمیں’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ پروجیکٹ ‘‘ کا آغاز ہوا تو ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘ کی تزئین و آرائش و تکمیل میں سیاست بھینٹ چڑھ گئی۔ سیاست زندہ درگور ہونے پر ریاست کا جاں بلب ہونا بنتا تھا۔ کئی ہفتوں پہلے انہی کالموں میں لکھ چُکا ہوں کہ الیکشن فروری میں ممکن اگر عمران خان کا مکو ٹھپ دیا گیا۔ مگر کیونکر اور کیسے؟ تو کیا تنگ آمد بجنگ آمد، مارشل لا ءکے امکانات برابر موجود؟ ایک کاوش دوسری کاوش کی مرہون منت اور پھرکاوشوں کا لا متناہی سلسلہ، نتیجتاً عدم استحکام کی عمیق دلدل حاصلِ اعمال بنتی ہے۔اپنے بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ آرمی چیف صاحب، ایک محب وطن کا معمولی مشورہ کہ ’’اقتدار کا وقتی استحکام تو ممکن رہنا ہے، آسودگی تسلی اور تشفی کے ڈنکے بھی بجنے ہیں۔ جاری اقدامات سے دیرپا سیاسی استحکام ناممکن رہنا ہے۔ عمران خان کی آخری خواہش کہ ’اگر میں نہ رہوں تو ریاست نہ رہے‘ کہ شاید اس طرح اداروں سے بدلہ چُکا یا جا سکے، حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ مجھے خدشہ کہ درخشاں پاکستان آپکا خواب ضرور، اسکاحصول کٹھن نظر آتا ہے کہ سیاسی استحکام کا سازو سامان دور دور تک میسر نہیں‘‘۔تاریخ انسانی گواہ سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں بے شُمار مملکتیں وجود کھو بیٹھیں ۔سیاسی استحکام کیلئے آئین قانون کی حکمرانی اولین شرط ہے۔ مملکت کی بد قسمتی ،کہ جن کے پاس طاقت آئین کی پامالی اور قانون کی بے حُرمتی میں سب سے آگے ہیں ۔ اپنے بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ آرٹیکل 10 (A) قاتل ، سیکس ورکرز ، ڈاکو ، چورہر ایک کو حقِ دفاع گارنٹی کرتا ہے ۔ پولیس گرفتار کر سکتی ہے مگر 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنے کی پابند بھی ہے ۔

دوسری طرف ہر جُرم کی ایک سزا متعین ہے ، شاید اداروں کے وارے میں نہ ہو۔میرا بیٹا بیرسٹرحسان نیازی 13اگست کو’’اُٹھا‘‘لیا گیا۔ بے شُمار مثالیں، گرفتاری کے بعد ’’اداروں‘‘ نے چند دن، چند ہفتے، چند مہینے، غیر معینہ مدت کیلئے اپنے قبضہ میں رکھا تاکہ ادارے’’اپنے آپکو انصاف‘‘دِلا سکیں ۔کہ آئین اور قانون ہمارے اداروں کو انصاف دلانے سے قاصر ہے ۔ اس تگ و دو اور انصاف کے حصول میں ہر ناگہانی امکان موجود ہے۔ حتیٰ کہ کچھ عرصہ بعد ’’انجر پنجر کھڑکا‘‘ یامردہ حالت میں پہنچا کر مطلع کر دیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے ذہنی معذور صلاح الدین کو ایک ادارہ پولیس سے لے گیا اور2 دن بعد اُسکی لاش پولیس کےحوالے کی کہ یہ توپتہ چل گیا کہ وہ بھارتی جاسوس نہیں بلکہ مسکین صلاح الدین تھا۔ یہ علیٰحدہ بحث کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کوجو انسانی اور عدالتی حقوق پاکستان میں حاصل ہیں اُسکی حسرت ہم پاکستانیوں کو ہے ۔ پشاور ہائی کورٹ نے حبس بے جاکی پٹیشن پر حسان خان کو جمعہ کو پیش کرنے کا حکم دیا تو جمعرات کو ڈویژن بینچ ہی توڑ دیا گیا۔ میرے لیے میرا اللہ ہی کافی ہے اور حضرت یعقوب کی یہ دُعا، ’’اے اللہ! میں بے بس ہوں میری مددفرما‘‘،مجھے میرے بیٹے کیلئے انصاف دے۔(آمین)

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں