اسلام آباد (پی این آئی) اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق 9 مئی واقعات میں کسی شخص نے ایسا جرم نہیں کیا جس پر اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو، گرفتار افراد کی فیملیز سے ملاقات کروائی گئی ہے۔
تمام 102 افراد کے وقار اور احترام کی ضمانت دی جاتی ہے، کسی کے ساتھ برا برتاؤ نہیں ہوا، میں نے خود چیک کیا، ملزمان کو صحت سمیت تمام سہولیات میسر ہیں، ان کے خلاف ناروا سلوک ہوا تو ایکشن ہوگا۔تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اہم ریمارکس دیے گئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے تاریخ سب دیکھ رہی ہے، اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں، ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں، ہم صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ قانون سے ہٹ کرقائم کورٹ عدالت تصور نہیں ہوگی، محرم علی کیس میں کہاکہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کی سپروائزری کے بغیر عدالت نہیں قائم ہو سکتی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ججز چھٹیوں پر ہیں، ستمبر سے قبل فل کورٹ کا قیام ممکن نہیں۔ عدالت نے فل کورٹ کی تشکیل پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔جبکہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے فوجی ٹرائل کا سامنے کرنے والے گرفتار افراد کے حوالے سے اہم تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 9 مئی واقعات میں کسی شخص نے ایسا جرم نہیں کیا جس پر اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو، یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمرقید نہ ہو۔ گرفتار افراد کی فیملیز سے ملاقات کروائی گئی ہے، تمام 102 افراد کے وقار اور احترام کی ضمانت دی جاتی ہے، کسی کے ساتھ برا برتاؤ نہیں ہوا، میں نے خود چیک کیا، ملزمان کو صحت سمیت تمام سہولیات میسر ہیں، ان کے خلاف ناروا سلوک ہوا تو ایکشن ہوگا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں