بہاولپور (پی این آئی) پولیس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایک اور عہدیدار کو منشیات کی خریدوفروخت کے الزام میں گرفتار کرلیا، یہ گرفتاری یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر سید اعجاز حسین شاہ کی گرفتاری کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے، پولیس نے مذکورہ عہدیدار کے قبضے سے آئس، جنسی گولیوں کے علاوہ طلبہ اور عملے کی قابل اعتراض ویڈیوز برآمد کی تھیں۔
پولیس کی ایک خصوصی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کا ایک گروپ منشیات کی فروخت اور طالبات اور اساتذہ کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔سٹی سرکل پولیس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ٹرانسپورٹ انچارج کو حراست میں لیا اور مبینہ طور پر اس کے قبضے سے 8 گرام کرسٹل میتھ نشہ برآمد کرلیا، ایک ایف آئی آر کے مطابق پولیس نے انسداد منشیات ایکٹ 1997 کی دفعہ 9 (2) 1 کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔28 جون کو بغداد الجدید پولیس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے خزانچی کو گرفتار کیا تھا جس کے پاس سے کرسٹل میتھ نشہ اور جنسی اشتعال دلانے والی گولیاں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
بعدازاں 2 روز قبل 21 جولائی کو پولیس نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکیورٹی افسر کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے مبینہ طور پر ڈرگز اور جنسی اشتعال دلانے والی گولیوں کے علاوہ 2 موبائل فونز سے متعدد قابل اعتراض ویڈیوز بھی برآمد کی تھیں۔یونیورسٹی کے سیکورٹی چیف کو حراست میں لیا اور اس کے فون سے جنسی طور پر واضح مواد کے ساتھ ساتھ اس کے قبضے سے کئی افروڈیسیاک گولیاں اور منشیات برآمد کیں۔ایک خصوصی رپورٹ میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ منشیات کے الزام میں گرفتار دونوں عہدیدار یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ کو بلیک میل کرنے اور ان کے جنسی استحصال میں بھی ملوث تھے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ خزانچی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دیگر اساتذہ کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر منشیات خریدتا اور طلبہ میں بانٹتا تھا اور ڈانس/فحش پارٹیوں کا اہتمام کرتا تھا۔پولیس نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی اساتذہ کا گروہ لڑکیوں کا استحصال/بلیک میل کرتا تھا اور منشیات (آئس، شراب اور چرس) کا استعمال کرکے انہیں پھنسا لیتا تھا، یہ گروہ اس قسم کی سرگرمیاں یونیورسٹی کے سیکیورٹی انچارج کی مدد سے انجام دے رہا تھا۔پولیس نے سیکیورٹی چیف کو بغداد الجدید موڑ پر ایک ناکے پر روکا اور اس کی جیب سے 10 گرام آئس اور جنسی اشتعال دلانے والی 5 گولیاں برآمد کیں اور منشیات کے کنٹرول کے ایکٹ 1997 کی دفعہ 9 (2) 1 کے تحت مقدمہ درج کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم نے انکشاف کیا کہ کچھ اساتذہ اس کے ساتھ ان منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال میں ملوث تھے اور وہ طلبہ سمیت یونیورسٹی کے خواتین عملے کے ساتھ کیمپس کے اندر اور باہر فحش پارٹیاں بھی منعقد کرتے تھے۔ملزم کے موبائل فون کی جانچ کے بعد تفتیشی ٹیم نے منشیات سپلائی اور خریدنے میں ملوث کچھ طلبہ کا سراغ بھی لگایا۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے 11 طلبہ کا مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے اور وہ منشیات فروشی میں ملوث ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ میں منشیات کی خرید و فروخت کے لیے موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات اور خواتین کی قابل اعتراض تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شامل ہیں۔یونیورسٹی حکام کے خلاف پولیس کی کارروائی کے ردعمل میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر عثمان انور کو خط لکھ دیا۔مذکورہ خط میں آئی جی سے درخواست کی گئی کہ وہ گرفتاریوں کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری ٹیم تشکیل دیں۔
خط میں کہا گیا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ممنوعہ ادویات کے استعمال اور جنسی طور پر ہراساں یا استحصال کیے جانے کے خلاف ’زیرو ٹالرینس پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے، یونیورسٹی عہدیداران کے خلاف مقدمات ’بوگس‘ ہیں۔آئی جی کو لکھے گئے ایک اور خط میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے قانونی مشیر نے آئی جی سے تفتیشی ٹیم از سر نو تشکیل دینے کی استدعا کی، انہوں نے کہا کہ بغداد الجدید پولیس اسٹیشن بہاولپور میں درج دونوں ایف آئی آرز میں ایک فرد گواہ تھا، مذکورہ عہدیدار مبینہ طور پر منشیات کے کیسز میں ملوث تھا اور جوڈیشل ریمانڈ پر ہے۔انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی استدعا کی کہ وہ عدالتی تحقیقات کا حکم دیں کیونکہ یہ کارروائی یونیورسٹی کے خلاف کی جارہی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں