لاہور ( پی این آئی )30 سال میں کچھ بھی نہیں بدلا،یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے، کئی دہائیوں سے دہرائی جا رہی ہے،دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پابندیاں لگا کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا جاتا ہے کہ خاموش رہو ورنہ ملکی مفاد خطرے میں پڑ جا ئے گا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے اپنے بلاگ میں صحافیوں کے قتل اور اغواء کے واقعات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ اپنے بلاگ “کپڑے بچانے ہیں ” میں حامد میر نے لکھا کہ یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ یہ کہانی کئی دہائیوں سے دہرائی جا رہی ہے۔ اس کہانی کے کردار اور ان کا انجام کچھ مختلف ہوتا ہے لیکن کہانی کا سبق یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہو یا مارشل لاء لیکن یہ طے ہے کہ صحافت ایک بہت خطرناک پیشہ ہے۔ یہ سبق بار بار یاد کرانے کیلئے صحافیوں کو بار بار جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا جاتاہے، اغوا ءکرلیا جاتا ہے یا پھر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پابندیاں لگا کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا جاتا ہے کہ خاموش رہو ورنہ ملکی مفاد خطرے میں پڑ جا ئے گا۔ صحافیوں کے کپڑے اتار کر قہقہے لگانے کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا بلکہ اب تو صحافت کے کپڑے ہی اتارے جا چکے ہیں۔حامد میر نے لکھا کہ یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور جنرل صاحب ایک غیر جماعتی قومی اسمبلی سے شریعت بل منظور کراکےاپنی آمریت کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک دن علامہ احسان الٰہی ظہیر نے میرے والد مرحوم کو خبردار کیا کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے مخالف علماء اور صحافیوں کو خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو اپنا ضمیر فروخت نہیں کرےگا اسے مار دیا جائے گا۔ پھر ایک دن گورنر ہاؤس لاہور میں پروفیسر وارث میر کو بلایاگیا اور جنرل ضیاء الحق نے انہیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ فرمایا ہم آپ کو ڈیپوٹیشن پر پنجاب یونیورسٹی سے وفاقی حکومت میں لائیں گے اور آپ کے علم و فضل سے فائدہ اٹھانے کے لئے آپ کو اپنا مشیر بنائیں گے۔اپنے بلاگ میں حامد میر نے مزیدلکھا کہ والد صاحب نے ایک حکومتی عہدے کے عوض اپنا ضمیر فروخت کرنے سے معذرت کی تو چند دنوں کے بعد انہیں ایک شوکاز نوٹس ملا جس میں کہا گیا کہ آپ تو ایک سرکاری ملازم ہیں آپ حکومت پر تنقید نہیں کر سکتے۔
والد صاحب کی طرف سے اس شوکاز نوٹس کا جواب جناب ایس ایم ظفر صاحب نے تیار کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں ان کالب و لہجہ پہلے سے زیادہ سخت ہوگیا اور پھر باری باری بہت سے علماء مارے جانے لگے۔ آغاز علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت سے ہوا۔ پھر وارث میر گئے۔ انہیں زہر دیا گیا جس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ پھر علامہ عارف الحسینی کو شہید کیاگیا لیکن کچھ دنوں کے بعد خود جنرل ضیاء الحق کو بھی اوپر سے بلاوا آگیا۔ بلاگ کے آخر میں حامد میر نے لکھا کہ عرض یہ کرنا تھا کہ30 سال میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ جنرل ضیاء الحق آج بھی زندہ ہے اور ہم بھی زندہ ہیں۔ یہ لڑائی ختم نہیں ہوگی کیونکہ ہمیں اپنے کپڑے بچانے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں