پشاور(پی این آئی) پی ڈی ایم کے سربراہ اورجمعیت علمائے ا سلام ( ف ) کے صدر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو دبئی میٹنگ کے حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کواعتماد میں لیناچاہیے تھا۔
سینیئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ سوال پی ڈی ایم میں موجود ہے کہ مسلم لیگ( ن) نے اب تک اتحاد میں شامل جماعتوں کو دبئی میٹنگ کے حوالے سے اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔انہوں نے کہا کہ دبئی مذاکرات اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بندی سے ہوئے اس لیے سب کواعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔سینئر سیاستدان نے کہا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کاحصہ نہیں اس لیے اس سے دبئی مذاکرات کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے۔پی ڈی ایم کےمستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم ایک تحریک تھی جس کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔
آئندہ الیکشن کے حوالے سے اظہارخیال کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی ( ف ) کا کہنا تھا کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، انہوں نے کہا کہ ایک ماہ میں مرکز، سندھ اوربلوچستان میں نگران حکومتیں قائم ہوجائیں گی۔اقتصادی حالات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ معاشی بہتری آناشروع ہوگئی ہے، دوست ممالک مددکرتے ہوئے پہلا قدم اٹھارہے ہیں، دوسرا قدم سرمایہ کاری ہوگا۔چیئرمین پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی امریکہ کوگالی بھی دیتاہے اور اس سے یاری بھی گانٹھی جارہی ہے، عجیب بات ہے کہ وہ عالمی برادری جو قران پاک کی توہین کرتی ہے وہی چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت بھی کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی پٹھو جعلی کاغذ لہراکرمظلوم بننے کی اداکاری کرتا رہا، امید ہے کہ قوم عام انتخابات میں اس فتنے سے ملک کومحفوظ رکھے گی۔2018 کے انتخابات کے حوالے سے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم 2018 اتخابات کے بعد اسمبلیوں کی رکنیت کاحلف نہیں اٹھاناچاہتے تھے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے ایساکرنا پڑا۔ ہمارے لیے بے شمارمشکلات پیداکی گئیں مگر ہم نے تحمل سے کام لیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس ( چیئرمین پی ٹی آئی ) کی حکومت کونہیں ہٹاناچاہتے تھے تاہم اپوزیشن کا ساتھ دینے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت ملکی وحدت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں ورنہ ہماراموقف اپنی جگہ موجودہے۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ فوج ایک ادارہ ہے جس سے اختلاف ممکن نہیں البتہ شخصیات سے اختلاف ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں