لاہور ( پی این آئی ) دلدل میں پھنس چُکے ، آج جو کچھ کاٹ رہے ہیں، بوائی، آبیاری کئی برسوں پہلے کی تھی۔چیئرمین تحریک انصاف سمیت سب کو سچ بولنا ہوگا،صلح کرنی ہوگی ،معافی تلافی ہوگی تو پاکستان بچ جائے گا۔ مملکتِ اسلامیہ پاکستان کے تمام سیاسی، سماجی دانش کدے اِس بات پر متفق ہیں کہ وطن عزیز دلدل میں پھنس چُکا ۔
فکر وفاقہ ایک ہی ہےکہ مملکت کو نکالا کیسے جائے؟ بد قسمتی کہ حل کسی بھی سٹیک ہولڈر کو وارا نہیں کھاتا۔معروف تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے موجودہ سیاسی صورتحال کا “حل” بتا دیا ۔” جیو نیوز ” میں شائع ہونے والے اپنے بلاگ بعنوان “واحد حل” میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ آج جو کچھ کاٹ رہے ہیں، بوائی، آبیاری کئی برسوں پہلے کی تھی ۔ مقتدر طبقہ کے کرتوتوں ہی نے تو وطن عزیز کو آج حالتِ نزع میں پہنچایا ہے۔ وطنی تاریخ اور ذاتی مشاہدات کا لب لباب، ہمارے مسائل کا نقطہ آغاز 7 جنوری 1951 سے ہی ہو گیا۔ اگرچہ سیاستدان برضاو رغبت بڑھ چڑھ کر استعمال میں رہے، اصل وارداتوں کےذمہ دار نہیں۔پہلی واردات کا آغازیہیں سے، ستر سال سے نظام کی ترتیب ایک کی فکرِ تدبر کی مرہون منت رہی۔ ایک آدمی کی فکر اور سوچ کے اُصول پر ملکی نظم و نسق ترتیب پاتا رہا ۔لا محالہ پہلی واردات کی کوکھ سے دوسری واردات کا جنم لینا ایک فطری عمل تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے لیکر خواجہ ناظم الدین کی معزولی تک ، ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار میں آنا پھر راندہ درگاہ ہونا، بینظیر بھٹو تا نواز شریف تا عمران خان تا شہباز شریف ،قوم دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے ، “27 ستاروں کی کہکشاں” میں سے ( ماسوائے لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین ) ایک “درخشاں ستارہ ” جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر مسند پر بیٹھا ہو یا پھر راندہ درگاہ نہ ہوا ہو۔
حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ تیسری واردات 27 وزرائے اعظم میں سے ایک بھی ہو جسکی کی عسکری قیادت سے بن پائی ؟ محمد علی بوگرہ سے شہباز شریف تک گو آغاز ہمیشہ مثالی تعلقات سے ہوا انجام ہمیشہ ریاست پر بھاری رہا اقتدار کی کشمکش نے چولیں ہلا ئیں۔برائےتفنن ،جنرل باجوہ نے موجودہ حکومت کو ہٹانے کیلئے مارشل لاء کا بھی سوچا۔ چوتھی واردات،جتنے وزراء اعظم نکالے گئے سب پر کم و بیش الزامات ایک جیسے “کرپٹ ، نااہل، سیکورٹی رسک”ہیں۔پانچویں واردات: کسی کو مسند MERIT ( ایک آدھ کو چھوڑ کر)پر نہیں ملی۔ترجیح اتنی کہ مٹی کامادھورہے تاکہ جیسے چاہیں مروڑ توڑ لیں۔چھٹی واردات: “قومی سلامتی، وسیع تر قومی مفاد اور استحکام پاکستان”کےپردے پیچھے ہمیشہ دلجمعی کیساتھ ذاتی مفاد ، اپنی سلامتی اور اپنے اقتدار کا استحکام یقینی بنانا تھا۔ ساتویں واردات :اقتدار کو دوام دینے کیلئے” آب حیات “کی تلاش بذریعہ دستور اور آئین اورنظام کی دھونس دھاندلی رہی۔مقصد راسخ، سیاسی نظام جائز ناجائز اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ سے باہر نہ ہو نےپائے۔ حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ آٹھویں واردات:سربراہ اپنے لا محدود اختیارات، بے پایاں طاقت کے بل بوتے پراپنے ہی ادارے کو ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتا رہا۔تکلیف اتنی کہ روز ِاول سے قومی سیاستدان شریک جرم بھی ،اسٹیبلشمنٹ واردات کیلئے کمر بستہ نظر آئی، سیاستدانوں نے اپنے نظریات ( جو سرے سے موجود نہیں) اصول، اخلاقیات کو بالائے طاق رکھا کہ ممدومعاون بن گئے۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے اگلے دن بوگرہ کا حلف اُٹھا لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کیA ٹیم ضیاء الحق کے دستر خوان پرآن پہنچی ۔ نواز شریف کے ساتھی2002 میں( ق) لیگ میں اورعمران خان کی کابینہ، آئے دن معافی کی خواستگارجبکہ نواز شریف کی پارٹی جنرل باجوہ کے اشاروں پر ناچتی رہی۔ بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ ملک کو دلدل سے نکالنے کیلئےایک ایسے چارٹر پر کام کی ضرورت ہے جس میں عمران خان بھی موجود ہو اور فوجی قیادت بھی اُسکے حقوقِ ملکیت لے۔ اس سے پہلے سیاستدانوں کے ہر ایسے اکٹھ یا گفت و شنید میں حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ غیر موجود رہے ہیں۔ اس دفعہ سب کو ایک دوسرے کو معاف کرنا اوراکٹھے بیٹھنا ہوگا۔ جسکا جو سیاسی نقصان جسکے ہاتھوں ہوا ہے اسکی معافی مانگنا ہوگی اور تلافی کرنا ہوگی۔ یقین دلاتا ہوں اگر ایسا ہوا پایا تو پاکستان بچ جائے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں