لاہور (پی این آئی ) آج تحریک انصاف وہی کہہ رہی ہے جو ہم 2019ء میں کہہ رہے تھے، جو آج تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ آنے والے وقت میں دوسروں کےساتھ بھی ہوگا۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے اہم انکشاف کر دیا ۔ “جیو نیوز ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان “یہ سب گڑھوں میں گریں گے” میں انہوں نے لکھا کہ ایک صحافی دوست کے ذریعے پتہ چلا کہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ “ڈاکٹر صاحب “مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔کل شام اسی صحافی دوست کے گھر ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکاؤنٹ بنا رکھے تھے، کوئی اکاؤنٹ خاتون کے نام پر تھا، پاکستان چھوڑنے سے پہلے وہ3 لوگوں سے معافی مانگنا چاہتے تھے ان میں سے ایک میں بھی تھا۔حامد میر نےلکھا کہ ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ سے معافی اس لئے مانگ رہاہوں کہ آپ ہم سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی نفرت ہم نے آپ سے کی۔ کافی دیر گفتگو کے بعد ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ 2 دن بعد میں یہ ملک چھوڑ کر چلا جاؤں گا لیکن جاتے جاتے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو 2019ء میں یہ کیسے پتہ چل گیا تھا کہ ہمارا انجام بہت دردناک ہوگا اور دوسروں کو رُلاتے رُلاتے ہم خود رونے لگ جائیں گے؟۔یہ سوال سن کر میں نے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ جس کالم کا آپ ذکر کر رہے ہیں یہ کس تاریخ کو شائع ہوا؟ ڈاکٹر صاحب نے لیپ ٹاپ سے چیک کیا اوربتایا کہ آپ کا کالم 21نومبر 2019ء کو شائع ہوا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یاد کریں فروری 2019ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرناکیس کا فیصلہ لکھا تھا۔ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف نہیں تھا بلکہ خفیہ اداروں کی سیاست میں مداخلت، میڈیا پر غیرعلانیہ سنسر شپ، پیمرااور الیکشن کمیشن کی نااہلی کے خلاف تھا۔ اس فیصلے کے بعد جنرل قمرجاوید باجوہ نے قاضی فائز عیسیٰ کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور کچھ صحافیوں کو ان کےخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ میں نے باجوہ سے اختلاف کیا اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے کالم لکھ دیا۔ کالم شائع ہوا تو وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ افسوس کہ اس یقین دہانی کے چند دن بعد قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس فائل کردیا گیا۔ مجھ پر واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف تباہی سے دو چار ہونے والی ہے کیونکہ جس جماعت نے انصاف کے ادارے کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے فیصلہ لکھنے والے کو تباہ کرنے کی سازش کی اس کا اپنا مقدر تباہی تھی۔حامد میر نےلکھا کہ تباہی مجھےدیوار پر لکھی نظر آ رہی تھی لہٰذا میں نے کالم لکھ کر وارننگ دی لیکن میری وارننگ پر مجھےگالیاں دی گئیں۔ میرا جواب سن کر ڈاکٹر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ معانقہ کیا اور ایک دفعہ پھر معافی مانگ کر رخصت ہوگئے۔ گھرواپس آتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کاش فروری 2019ء میں تحریک انصاف کی حکومت فیض آباد دھرناکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کورد نہ کرتی بلکہ اس فیصلے پر عملدرآمد کراتی تو آج پاکستان کےحالات مختلف ہوتے۔ حامد میر نے مزید لکھا کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی آئین شکنی کے خلاف جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ بھی 2019ء میں آیا تھا۔ تحریک انصاف نے اس فیصلے کوبھی مسترد کیا۔ یہ فیصلہ لکھنے والے جسٹس وقار سیٹھ نے فوجی عدالتوں کی سزائوں کو معطل کیا تو تحریک انصاف کی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کے خلاف اپیل کردی۔ میرے جیسے صحافیوں کا قصور صرف یہ تھا کہ ہم عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے رہے اور تحریک انصاف سے گالیاں کھاتے رہے۔حامد میر نے بلاگ کے آخر میں لکھا کہ آج تحریک انصاف وہی کہہ رہی ہے جو ہم 2019ء میں کہہ رہے تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پارٹی کی قیادت میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے۔ خاطر جمع رکھیے۔ جو آج تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ آنے والے وقت میں دوسروں کےساتھ بھی ہوگا۔ یہ دوسروں کے لئے گڑھے کھودتے ہیں اور پھر خود ہی ان گڑھوں میں گر جاتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں