اسلام آباد (پی این آئی) فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کا کیس،سپریم کورٹ نے منگل تک کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت جاری ہے،چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے دلائل دئیے کہ کورٹ مارشل سے بینادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں،آرٹیکل 10 کے تحت شفاف ٹرائل ہر شہری کا حق ہے۔ کورٹ مارشل سے عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے،آرٹیکل 25 ہر شہری کی عزت نفس کی ضمانت دیتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کوئی ٹیم کرتی ہے؟۔جس پر وکیل نے بتایا کہ کورٹ مارشل کیلئے ایک آفیسر کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی جاتی ہے،سویلین کے کورٹ مارشل میں جرم ثابت ہونے پر اپیل آرمی چیف سے کی جاتی ہے،آرمی چیف اپیل مسترد کر دے تو ہائیکورٹ میں محدود نکات پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے۔
احمد حسین کا کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کا بھی کورٹ مارشل کیا گیا،بھارتی جاسوس کی سزا کیخلاف بھارت نے عالمی عدالت سے رجوع کیا،کلبھوشن کو ملٹری کورٹ سے سزا کیخلاف نظرِ ثانی کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی اور ملک میں بھی فوجی عدالتوں ہیں؟کیا کسی اور ملک میں بھی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟۔وکیل نے بتایا کہ برطانیہ اور امریکہ میں بہت کم،جبکہ غیر معمولی حالات میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائلز ہوتے ہیں،کوئی اپنے معاملات میں خود جج نہیں بن سکتا،سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ آئین کہتا ہے آرمی سے متعلق کسی قانون میں مداخلت نہیں کی جا سکتی،ہم کسی قانون کو چھیڑے بغیر اس کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے وکلاء اور صحافیوں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ چاہتے ہیں منگل تک کارروائی کا نتیجہ نکال سکیں،ہراساں کرنے سے متعلق کوئی جوڈیشل آرڈر نہیں کرنا چاہتے،سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں