تحریک انصاف کی 2 تگڑی وکٹیں گر گئیں

لاہور (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء ہمایوں اختر خان نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ان حالات میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعلق قائم رکھنا ممکن نہیں رہا، شہداء کا لہو اورقربانیاں یہ قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

9 مئی کے واقعات نے قوم کی طرح ہمارے خاندان کو بھی افسردہ کیا ۔پاکستانی قوم نے ہمیشہ پاک فوج کا بہت احترام کیا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی سندھ کے بانی رکن اشرف جبار قریشی نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ آج بہت ہی افسوس ہے کہ پی ٹی آئی کے فیصلے عجیب و غریب ہیں سندھ کیبینیٹ اناؤنس ہوئی میرا نام ایک بار پھر ڈال دیا گیا۔ مجھ سے پوچھے بغیر میرے یہ کہنے کے باوجود کے بات خان صاحب کے ساتھ ہے۔انہوں نے جو پالیسی بنائی ہے جس کے نتیجے میں سیاست اور سیاستدانوں کے بجائے ریاست کے ساتھ ٹکراؤ میں چلی گئی۔اتنا بڑا فیصلہ ہوا ہماری لائف لائن پر حملہ ہوا ہمارے شہیدوں کے یادگاروں کو نقصان پہنچایا اور برگر لیڈرشپ نے ٹک ٹاکر کے ساتھ مل کر ریاست پر حملہ کیا۔ کیا اس کے ذمہ دار وہ تمام لیڈر شپ نہیں ہیں؟ جنہوں نے انسٹرکشن دی۔ کیا یہ لوگ سب بچے تھے ؟ سوشل میڈیا ایکٹرز کو اور بندر نما لیڈرشپ جس کو صرف لائک چاہیے تھے کیوں کہ پارٹی میں مقام کا تعین صرف سوشل میڈیا پر نظر آنا تھا۔آج سارے ورکرز ز اور ان کی فیملیز پریشان ہیں۔ ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے جو تھانے دار تھے وہ سو کولڈ روپوش ہیں۔

تنظیم کا صرف ایک کام ہے جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیے بس شو کاز نوٹس دینا ہے۔ میں نے ہمیشہ عمران خان صاحب سے اختلاف کیا اور انہیں صحیح بات بتائی وہ سیاست کو نہیں سمجھتے اور آج بھی اب تک نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ سب ایک نارمل مظاہرہ نہیں تھا یہ ریاست پر حملہ تھا اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ یہ تھا پی ٹی آئی کا احتجاج آج اس کی ذمہ داری کون لے گا۔کیا رو پوش ہونا اس مسئلہ کا حل ہے؟ اس طرح تو یہ لڑائی اور بڑھے گی۔ آپ کے ورکر اور ایک عام آدمی جو کہ آپ کو سن کر آیا تھا اس کو مشکل میں سے نکالیں۔ لیڈربنیں! گیدڑ نہ بنیں! سب کے سب چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں۔ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے جو صرف واٹس اپ گروپ پر ایکٹیو ہو اور فزیکل میں کہیں نہ نظر آئیں۔ میں (ایس وی پی) پی ٹی آئی سندھ کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ جب تک اصلی پی ٹی آئی نہیں ہوگی یہ سب ایک ڈرامہ ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں