اسلام آباد (پی این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق نے کہا ہے کہ معاشی بحران بہت شدید تھا جس سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور استحکام آ گیا ہے، پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کریگا، پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائیگی، بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے۔
بجٹ کے بعد تجاویز کو ڈیل کرنے کیلئے کمیٹی بنائی جارہی ہے، پرائیوٹ پبلک سیکٹرکو لیکر چلنے سے ملک کا پہیہ چلے گا،نئے مالی سال میں 2963 ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو جائیگا ، تاریخ میں پہلی بار پی ایس ڈی پی کیلئے 1150ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی ہے، پی ایس ڈی پی پر شفاف طریقے سے عمل کیا تو نظام بہتر ہوجائیگا،ترقیاتی بجٹ پردرست عمل ہو تو شرح نمو کا ہدف حاصل کرلینگے،50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پرکرنے کیلئے 30 ارب روپے رکھے ہیں
دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا،بیواؤں کے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کاقرض حکومت اداکریگی، 1074ارب روپے کی سبسڈی میں سے 900 ارب پاور سیکٹرکے ہیں،یورپین یونین جی ایس پی پلس میں توسیع دے گا،جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا۔ہفتہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہاکہ اکثر ہم ایسا کرتے رہے ہیں کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد ایف بی آر میں دو کمیٹیاں بناتے ہیں۔
ایک کاروباری معاملات کے حوالے سے ہوتی ہے اور دوسرے تکنیکی امور کے بارے میں ہوتی ہے، چیئرمین ایف بی آر مجھ سے منظوری لے لیں گے جس کے بعد ہم اس کو بنا دیں گے۔انہوںنے کہاکہ اگر ان دونوں چیزوں میں کسی کو شکایات ہیں تو وہ ان کمیٹیوں سے رجوع کر سکتا ہے تاکہ ہم ان کے تحفظات کو بھی دور کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ مجموعی وفاقی ریونیو 12ہزار 163ارب کا اس بجٹ میں پیش کیا گیا، ایف بی آر کی کلیکشن 9ہزار 200 اور نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار 963 ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس میں اسٹیٹ بینک کا منافع 1113 ارب روپے ہے، صوبوں کو منتقلی کے بعد مجموعی وفاقی ریونیو 6 ہزار 887 ارب روپے ہے جبکہ اس ریونیو کے مقابلے میں کْل خرچہ 14ہزار 463 ہے۔
اس میں کرنٹ خرچہ 13ہزار 320 ہے جس میں مارک اپ کی 7ہزار 300 کی بڑی رقم ہے، دفاع کے 1804 ارب روپے ہیں، ایمرجنسی اور دیگر کے لیے 200ارب ہیں، گرانٹس کے لیے 1464 ارب روپے ہیں، سبسڈیز 1074ارب کی ہیں۔انہوںنے کہاکہ وفاقی خسارہ 7ہزار 573 (منفی 7.2فیصد) ہے اور صوبائی سرپلس کے بعد 6ہزار 923 ہے جو 6.54 فیصد بنتا ہے، مجموعی پرائمری 380ارب روپے رکھا گیا ہے اور جی ڈی پی کا 0.4فیصد حصہ بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں نے 18ـ2017 کا بجٹ پیش کیا تھا تو پی ایس ڈی پی ایک ہزار ٹریلین تھا اور جو پچھلے سال 567ارب تھا، اس کے بعد پہلی مرتبہ ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور ہم نے 1150ارب روپے اس مرتبہ مختص کیے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں