پی ٹی آئی چھوڑنے والے کتنے لوگ جہانگیر ترین سے رابطے میں ہیں؟ عون چوہدری نے تصدیق کر دی

اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عون چوہدری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے 50 سے زائد لوگوں نے جہانگیر ترین سے رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری اور جہانگیر ترین میں رابطے سے متعلق مجھے علم نہیں، ان کے جہانگیر ترین سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔کارکنوں کو باقاعدہ ہدایات دی گئی تھیں کہ کہاں کہاں حملہ کرنا ہے،9مئی کے واقعے میں ملوث تمام افراد کو سز ا ملنی چاہئے۔ ہم سیاسی لوگ ہیں ،ملتے رہتے ہیں، پی ٹی آئی چھوڑنے والے 50سے زائد لوگوں نے جہانگیر ترین سے رابطہ کیا۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کے بعد سینئر سیاستدان جہانگیرترین کے ساتھ ٹیلفونک رابطہ کیا ہے، بتایا گیا ہے کہ فواد چودھری اور جہانگیرترین کے درمیان سیاسی صورتحال اور آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل پر بات چیت ہوئی ہے۔یاد رہے جہانگیرترین نے لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، اور مختلف سیاسی رہنماء ان سے رابطے کررہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چھبیس منحرف اراکین اسمبلی نے شمولیت کیلئے مسلم لیگ ق سے رابطہ کرلیا ہے، ق لیگی قیادت سے رابطہ کرنے والوں میں سابق اراکین اسمبلی فیض اللہ کموکا اورچوہدری اخلاق و دیگر شامل ہیں۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے ارکان نے ق لیگ میں شامل ہونے کا اظہار کیا ہے۔منحرف ارکان نے آئندہ الیکشن لڑنے کیلئے ٹکٹ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔مسلم لیگ ق نے چوہدری سرور کو رابطوں کی ذمہ داری دے دی۔چوہدری سرور کو دوسری جماعتوں سے بات چیت کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئی۔ تحریک انصاف کے اراکین کی ایڈجسٹمنٹ کا اختیار بھی چوہدری سرور کو دے دیا گیا۔ق لیگ سے رابطے کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے بانی مرکزی رہنماء سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل ، علی زیدی، ہاشم ڈوگر، سمیت درجنوں ارکان نے پی ٹی آئی،عمران خان اور سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا۔

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے نیوزکانفرنس میں کہا کہ 9مئی کے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو سزائیں ملنی چاہئیں، مجھ پر کوئی مقدمہ نہیں ، آزاد شہری کی حیثیت سے پی ٹی آئی کو چھوڑ رہا ہوں۔آج میری یہ آخری سیاسی پریس کانفرنس ہے ، سیاسی جدوجہد کی کچھ چیزیں شیئر کروں گا، 1993میں عمران خان کے ساتھ ورلڈکپ کے فوری بعد شوکت خانم کیلئے کام شروع کیا تھا، ان کے ساتھ وابستگی بڑی گہری رہی، 27سال کا تھا جب پی ٹی آئی کا سنگ بنیاد رکھا،کوشش تھی کہ سیاست میں پاکستان کے لوگوں کی ضروریات ہوں گی، میرا تعلق انڈسٹریل خاندان سے ہے، کبھی انڈسٹری کی طرف نہیں دیکھا، کوشش تھی ڈلیور کریں، لیکن نہیں کرسکے۔ پونے چار سال کی حکومت کے بعد پھر جدوجہد شروع کردی،الیکشن کیلئے عوامی رابطہ مہم کیلئے جدوجہد شروع کردی۔ ایک بیانیہ بننا شروع ہوا کہ پاکستان کا مقابلہ فوج کے ساتھ ہے۔ اس بیانیئے میں بہت سارے عمران خان کے ساتھ تھے اور بہت نے اختلاف بھی کیا۔ میں نام نہیں لینا چاہتا، وہ سوچیں جنہوں نے عمران خان کو ڈرٹی ہیری ، مسٹرایکس جیسے ناموں کے ساتھ پکارا۔

عمران خان کا 9تاریخ کو گرفتاری ہوتی ہے، پھر غدر شروع ہوجاتا ہے۔ میں شاہ محمود قریشی کے ساتھ اسلام آباد چلا گیا، میں سمجھ رہا تھا کہ یہ سب مناسب نہیں ہے، اس منحوس دن کو جی ایچ کیو ، کورکمانڈر ہاؤس، اور ایم ایم عالم کے جہاز پر، اسی طرح فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا۔ چاہتا ہوں کہ حملہ آور جو بھی ہوں ان کو سزائیں ملنے چاہئیں۔ میرا فوجی خاندان سے تعلق نہیں ہے۔ لیکن میرا دل فوج کے ساتھ ہے۔ کیونکہ میں پاکستانی ہوں۔ میں ایئرفورس میں جانا چاہتا تھا۔ میری ماں نے اس لئے نہیں جانے دیا کہ جنگیں ہوں گی میں اپنا بیٹا نہیں کھونا چاہتی۔ لیکن آج مائیں اپنے بیٹے قربان کررہی ہیں۔ کوئی بھی فوجی 50 ہزار کی تنخواہ میں جان دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ اس لئے جان دیتا کہ قوم اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان واقعات کی جتنی مذمت کی جائے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں