لاہور(آئی این پی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے ججز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ہمارے لیے آخری امید ہیں کیونکہ قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے جانتا ہوں ججوں میں اختلاف رائے ہے مگر پھر بھی اگر جمہوریت کو نہ بچایا تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی، مجھے اب نہ لیڈر شپ ملتی ہے نا کارکن۔ سمجھ نہیں آتی کس سے رابطہ کروں،حیرت ہے اس ظلم پر کسی انسانی حقوق تنظیم کی آواز نہیں نکل رہی،میرے گھر کے اطراف انٹرنیٹ کاٹ دیا گیا ہے تاکہ عوام تک پیغام نہ پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا پر یکطرفہ موقف چل رہا ہے۔ کارکن اور عہدیدار گھروں پر نہ رہیں کہیں چھپ جائیں، میں ایک مذاکراتی کمیٹی بناتا ہوں جو طاقتور لوگوں کے ساتھ بات کرے۔ اگر کمیٹی کو یہ لوگ بیٹھ کر سمجھا دیں میرے بغیر ملک کو آگے لے جانے کے لیے کوئی روڈ میپ ہے تو میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں یا کمیٹی کو سمجھائیں کہ اکتوبر میں انتخابات کرانے کا ملک کو کیا فائدہ ہوگا۔بدھ کو ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئر مین نے کہا کہ ہمارے لوگوں پر پریشر ڈالا جارہا ہے کہ تحریک انصاف سے الگ ہو جائیں مگر ایسا کرنے والے یاد رکھیں نظریے کو جکڑا نہیں جا سکتا ایسے ہتھکنڈوں سے تحریک انصاف کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے خود معلوم ہے کہ اس وقت ہمارے لوگوں پر کتنا پریشر ہے۔ وہ لوگ جو جمہوریت کے سپاہی تھے ان کے ساتھ ایسا رویہ روا رکھنا جمہوریت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک مذاکراتی کمیٹی بناتا ہوں جو طاقتور لوگوں کے ساتھ بات کرے۔ اگر کمیٹی کو یہ لوگ بیٹھ کر سمجھا دیں میرے بغیر ملک کو آگے لے جانے کے لیے کوئی روڈ میپ ہے تو میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں یا کمیٹی کو سمجھائیں کہ اکتوبر میں انتخابات کرانے کا ملک کو کیا فائدہ ہوگا۔عمران خان نے پارٹی قیادت پر پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے دبائو ڈالنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے لاہور کور کمانڈر کے گھر پر آتشزدگی سے فائدہ اٹھایا اور اسے پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈان کے لیے استعمال کیا۔ ایسا کریک ڈان کیا جارہا ہے جو ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے پوری قیادت کو جیل میں ڈال دیا ہے اور ان لوگوں کو بھی جو پارٹی کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ میں پی ٹی آئی چھوڑ رہا ہوں کے جادوئی الفاظ بولیں، کیا یہ مذاق ہے؟سابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ججز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے لیے آخری امید ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے جس کی واضح مثال ہے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز گزرنے کے باوجود انتخابات نہیں کرائے گئے۔ جانتا ہوں سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلاف رائے ہے مگر پھر بھی اگر جمہوریت کو نہ بچایا تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ سارے جمہوری اداروں کو ایک ایک کر کے تباہ کیا جا رہا ہے۔ مجھے اب نہ لیڈر شپ ملتی ہے نا کارکن۔ سمجھ نہیں آتی کس سے رابطہ کروں۔پی ٹی آئی کے چیئر مین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز ملک کو بچائیں، ملک بنانا ریپلک بن رہا ہے کیوںکہ جو بھی آواز اٹھاتا ہے اس کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہ تو لگ رہا ہے کہ ہم ہٹلر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ مغرب اور یورپ میں لوگ اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں پر کوئی بھی ان کے بنیادی حقوق کے خلاف نہیں جا سکتا مگر یہاں پر کسی کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب بنیادی حقوق ختم ہو جائیں تو کمزور کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہیں ہوتا۔ احتجاج کے د وران ہمارے 25 وگوں کو شہید کیا گیا مگر کوئی انکوائری نہیں کی جا رہی۔ جب معاشرے کے دوران پر امن احتجاج پر گولیاں چلائیں گے تو کل کسی بھی باری آ سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔ جو بھی یہ سوچ رہا ہے لوگوں کو پی ٹی آئی سے الگ کرنے سے پی ٹی آئی ختم ہو جائے گی تو یہ ان لوگوں کی سوچ ہے کیوںکہ نظریہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ عوام میں جب آزادی کا نظریہ آ جاتا ہے تو آپ کبھی بھی اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کی غلامی تسلیم کر چکے ہوتے۔ کسی بھی پارٹی کے ووٹ بینک کو اوچھے ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا اور اس وقت لوگوں میں غم وغصہ ہے۔ آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے کسی پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
ایران میں بھی لوگوں پر بڑا ظلم کیا گیا مگر وہاں پر انقلاب آ کر رہا تھا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اتنے پریشر کے باوجود ہماری جو لیڈر شپ ڈٹی ہوئی ہے میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں مگر یاد رکھیں کہ اگر سب بھی ساتھ چھوڑ جائیں تو جیتے گا وہی جسے میں ٹکٹ دوں گا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ، پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن سب ملے ہوئے ہیں مگر پھر بھی ہمارے مخالفین الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت تب ختم ہوتی ہے جب اس کا ووٹ بینک ختم ہو جائے۔عمران خان نے کہا کہ جلائو گھیرا ئوپر جب بھی تحقیقات ہوں گی ثابت ہوجائے گا یہ پری پلان تھا، حیرت ہے اس ظلم پر کسی انسانی حقوق تنظیم کی آواز نہیں نکل رہی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہی نہیں حمایتیوں کو بھی جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے 10 ہزار سے زائد کارکنوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے۔ یہ لوگ ایک جادو کا لفظ کہہ دیں کہ تحریک انصاف میں نہیں ہو آپ رہا ہوجائیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ جیل میں قید کارکنوں کو کھانا نہیں دیا جارہا۔ وکلا سے ملنے نہیں دیا جارہا۔ان کا کہنا تھا کہ میرے گھر کے اطراف انٹرنیٹ کاٹ دیا گیا ہے تاکہ عوام تک پیغام نہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پر یکطرفہ موقف چل رہا ہے۔ کارکن اور عہدیدار گھروں پر نہ رہیں کہیں چھپ جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو ان خواتین پر ظلم نظر نہیں آیا۔ شیریں مزاری کو ایک سے دوسرے جیل، رہائی کے بعد بار بار گرفتار کیا گیا۔ شیریں مزاری بیمار ہیں وہ یہ سب برداشت نہیں کرسکتی تھیں۔عمران خان نے کہا کہ میں نے شکر کیا کہ شیریں نے ظلم سے خود کو بچانے کیلیے پارٹی چھوڑی۔چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ صرف تحریک انصاف کو نقصان نہیں جمہوریت ختم کی جارہی ہے۔ پاکستان میں بنیادی حقوق ختم ہوچکے ہیں۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ 25 لوگ شہید کیے گئے۔ کیوں اب تک تحقیقات نہیں ہوئیں؟ یہ تحقیقات ہوں گی، آج نہیں کریں گے تو مستقبل میں ہوں گی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کرلیں کہ ملک میں اب پرامن احتجاج کی اجازت نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں